زینب کی ماں کی فریاد جو سب کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دے

زینب زینب میری بیٹی کہاں ہو تم میں نے جب زینب کو بار بار پکارا تو میری آواز پر جی امی کہتی وہ کمرے سے نکل آئی ۔ناراض تھی وہ مجھ سے اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اس کو دیکھ کر پتہ چل رہا تھا کہ وہ روتی رہی ہے ۔اس کے دکھ کو دیکھ کر میرا بھی دل پھٹنے لگا تھا ۔

میں نے اس کو اپنے گلے سے لگا لیا بھینچ کر پیار کرتے ہوۓ اس کے گالوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیۓ اب وہ رو رہی تھی اور آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر میری آنکھوں سے بھی گر رہے تھے مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے کیسے تسلی دوں ۔رندھی ہوئی آواز میں اسے میں نے ایک بار پھر پکارا میری جان زینب میری بات تو سنو۔ میں جلدی لوٹ آؤں گی ۔

مجھے اللہ نے بلایا ہے اپنے گھر پر ۔میں جلدی لوٹ آؤں گی تمصارے لیۓ پیارے پیارے تحفے لاؤں گی ۔ زینب نے ایک بار پھر روتےہوۓ کہا کہ امی اللہ نے مجھے کیوں نہیں بلایا مجھے بھی اللہ کے پاس جانا ہے ۔میں بھی آپ کے ساتھ اللہ کے پاس جانا چاہتی ہوں ۔ میں اللہ میاں سے کہوں گی کہ مجھے بھی بلائيں ۔

میں نہیں جانتی تھی کہ اللہ اس کی اس طرح سن لے گا ۔اللہ کے گھر کے سامنے بیٹھی تھی کہ گھر سے فون آیا کہ زینب نہیں مل رہی مجھے لگا کہ کچھ دیر تک مل جاۓ گی میں نے خانہ خدا کی چادر تھامی اور اپنی بچی کی سلامتی کی دعائیں مانگنی شروع کر دیں ۔مجھے کیا خبر تھی کہ جس پل میں رب کے گھر کی چادر تھامے کھڑی تھی اس پل میری بیٹی کس کرب سے گزر رہی تھی ۔

انسانوں کے بھیس میں حیوان میری بیٹی کو اپنے ساتھ ہاتھ تھام کر کہاں لے گیا تھا ۔اس نے میری معصوم کلی جیسی بچی کو اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے لیۓ کتنی اذیت دی ہو گی ۔جب میری بیٹی کو اس نے زمین پر گرایا ہو گا تو زینب نے امی امی کہہ کر مجھے پکارا تو ہو گا میں اس سے کتنی دور خانہ خدا کی چادر تھامے کھڑی تھی ۔

زینب تو بہت نازک تھی وہ بہت شرم والی تھی ۔ اس کے لباس جب اس وحشی نے تار تار کیا میری زینب تو اسی پل شرم سے مر گئی ہو گی ۔میں اس کی اذیت کا تصور بھی کیسے کروں جسے کبھی میں نے پھول کی چھڑی سے بھی نہ مارا تھا اس کا گلا جب اس وحشی نے اپنے ہاتھوں سے دبایا ہو گا تو میری زینب کتنا تڑپی ہو گی کتنا مچلی ہو گی کہ اس کو ایک سانس مل پاۓ ۔

جب اس کے ہاتھ پیر بے جان ہونے لگے ہوں گے اس کے لبوں نے تب بھی مجھے پکارا ہو گا جب اس کا دم آخر ہو گا اس نے تب یہ تو سوچا ہو گا کہ اللہ تم نے میری ماں کو اپنے گھر تو بلا لیا مگر مجھے ایسے کیوں بلایا ۔جب میری زینب کی لاش اس کچرے میں چار دن تک پڑی رہی ہو گی ۔تب اس کی روح کتنی بے چین ہو گی ۔

لوگ پوچھتے ہیں مجھ سے کہ میری زینب کیسی تھی میں کیا بتاؤں ان کو کہ میری بیٹی تو فرشتوں جیسی تھی ۔میری بیٹی تو پھول جیسی تھی میری بیٹی تو رحمت تھی ۔میری بیٹی تو روشنی تھی مجھے کیا خبر تھی کہ کسی کو میری بیٹی کی صورت کی معصومیت نظر نہیں آئیگی اس کو صرف اس کا جسم دکھائی دے گا ۔

اس نے میری معصوم بیٹی کی معصومیت کو روند ڈالا ۔ اس کے بعد صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا ۔جسم کی پیاس بجھانے کے بعد جب اس کو ہوش آیا کہ زینب اس کے اس ظلم و زیادتی کے بار ے میں سب کو بتا دے گی تو اس نے اس کا گلا گھونٹ دیا ۔

میرے اللہ آج جب تم نے میری بیٹی کو اپنے پاس بلا لیا ہے ۔ مین تیرے گھر سے واپس آگئی ہوں مجھے اپنی بیٹی کو رخصت جو کرنا تھا ۔اس کے جسم پر چار دن تک کچرے میں پڑے رہنے کے سبب اس گند کو صاف کرنا تھا جو اس کی لاش سے چپک گیا تھا ۔اس خون کو صاف کرنا ہے جو اس کے لبوں سے تب نکلا جب اس کا گلا اس وحشی نے بے دردی سے دبایا تھا ۔

میرے رب میں نے اپنی بیٹی کو نہلا کر صاف ستھرا کر کے سفید کپڑے پہنا کر تیرے حوالے تو کر دیا ہے مگر مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ان داغوں کو ان دھبوں کو کیسے صاف کروں جو میری بیٹی کی روح پر اس جانور کی ظلم کے سبب لگ گۓ ہیں ۔میرے رب میری زینب تو فرشتوں جیسی تھی اس کی روح کے اوپر لگے زخم جب تم سے اس ظلم کی شکایت کریں تو اس کے مجرم کو سزا ضرور دینا ۔

To Top