زینب کے ساتھ ہونے والے سانحے میں پولیس کس کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے

ہماری قوم کی یہ خصوصیت ہے کہ جب بھی انہیں کسی سانحے یا مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یک جان ہو کر واویلا شروع کر دیتے ہیں اورسانحے کا الزام ایک دوسرے پر لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔جس کے سبب ایک شور و غوغا کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ایسا چند روز تک رہتا ہے اس کے بعد سب اپنے کام دھندوں میں مصروف ہو کر سب بھول بھال جاتے ہیں ۔

اس کے بعد ہمارے تفتیشی ادارے بھی سکھ کا سانس لیتے ہیں اور جرم کی فائل کو اس اسٹور روم میں ڈال دیتے ہیں جہاں ایسی ہی بہت ساری فائلیں منوں مٹی تلے دبی ہوتی ہیں ۔اگر عوام کا منہ بند کرنے کے لیۓ ایک آدھ ایف آئی آر کاٹ بھی لی جاتی ہے تو اس میں ایسی کمزور دفعات لگائی جاتی ہیں کہ جس کے سبب ملزم چند ہی ماہ میں سلاخوں سے باہر ہوتا ہے ۔

قصور میں معصوم زینب کے ساتھ ہونے والے سانحے کا بھی یہی حشر ہونے جارہا ہے ۔حکام کی غیر سنجیدگی کے سبب پہلے تو اس بچی کی لاش چار روز تک کچرے میں پڑی رہی اس کے بعد جب اس کے گھر والوں نے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی اپنی کوششوں سے حاصل کر کے حکام کے حوالے کی تو اس پر بھی پولیس کی غیر سنجیدگی کی انتہا ہو گئي ۔

اس فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مجرم جو ننھی زینب کا ہاتھ پکڑ کر لے جا رہا ہے اس کے چہرے پر داڑھی ہے ۔مگر حکام نے جب اسی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے جو تصویر بنائی وہ سی سی ٹی وی والی تصویر سے نہ صرف یکسر مختلف ہے بلکہ اس کے چہرے پر داڑھی بھی نہیں ہے ۔

کیا یہ غلطی تفتیشی اداروں سے نادانستگی میں ہوئی ہے یا پھر اس کا مقصد اصل مجرم کو بچا کر تفتیش کو کسی اور رخ کی جانب لے جانا تھا ۔ اسی طرح کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جہاں پر زینب کے لواحقین تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری کو ان تمام کوتاہیوں سے آگاہ کر رہے ہیں جو گزشتہ پانچ دنوں میں پنجاب پولیس کی جانب سے ہوئيں ۔

https://www.facebook.com/PeopleOfPakistanOfficial/videos/2268226156536125/

زینب کا ایک آدمی کے ساتھ اس طرح ہاتھ تھام کر جانے کا یہ واضح مطلب یہ سمجھ آتا ہے کہ زینب اس فرد سے اچھی طرح واقف تھی تبھی اس وحشی نے اس معصوم زینب کے  ساتھ جنسی زيادتی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کے لیۓ اس معصوم کا گلا گھونٹ کر ہلاک بھی کر ڈالا ۔

ائیر پورٹ پر جب زینب کے والد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے اس وقت ان کے عزیز و اقارب میں سے ایک شخص جو ان کے پیچھے کھڑا تھا اس کی شکل ہو بہو اس انسان سے ملتی ہے جو زینب کا ہاتھ تھام کر سی سی ٹی وی فوٹیج میں لے جاتا دیکھا گیا ہے مگر پولیس نے تاحال اس سے بھی کوئی باز پرس نہیں کی ۔

ان تمام باتوں سے اور پولیس کی غیر سنجیدگی سے فائدہ صرف اور صرف اس موذی مجرم کو ہو رہا ہے ۔ اس سبب عوام کے غم و غصے میں بہت اضافہ ہو گیا ہے اس پر سونے پر سہاگہ پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلا دیں جس سے مذید دو افراد ہلاک ہو گۓ ۔یہ تمام باتیں پنجاب حکومت کے بارے میں خدشات بڑھا تی جارہی ہے ۔

یاد رہے اس سے قبل بھی قصور ہی میں جب 2015 میں سو سے زیادہ  بچوں کی برہنہ ویڈیو بنا کر ان کو بلیک میل کرنے کا کیس سامنے آیا تھا تو اس میں بھی حکومتی ارکان کے ملوث ہونے کے سبب تفتیشی اداروں نے معاملات بگاڑ دیۓ تھے ۔ حقائق کی روشنی میں ایک بار پھر یہی بات سامنے آرہی ہے کہ پنجاب پولیس ایک بار پھر اپنے کچھ لاڈلوں کو بچانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے

To Top