یہ نگری کیسی نگری ہے؟

ایسا ہے کہ یہاں سب سازوں نے چپ سادھ لی ہے ۔ رنگ مدھم ہو گئے ہیں ۔ پروانے شمع کی بے پرواہی کو سمجھ چکے ہیں ۔ یہاں تو گھڑیوں نے بھی صدیوں کی روایات کو جھنجھوڑ دیا ہے، توڑ دیا ہے۔اور تو اور اس کے ہندسے بھی بغاوت کرنے لگے ہیں، اک دوسرے سے الجھنے لگے ہیں۔

یہاں تو پھول بھی کانٹوں کی قبیل میں شامل ہو کر چبھنے لگے ہیں، درد دینے لگے ہیں۔ ادھر آنسوؤں سے بھی رنگ نچڑنے لگا ہے۔ اور ہر کسی کے ذہن و دل پر اک سرمئ دھوئیں کا راج چھانے لگا ہے۔

ادھر تو درندے بھی خون چوس چوس کر تھک گئے ہیں، اپنے کئیے کا سوگ منانے لگے ہیں۔ بلبل کی آواز سے بھی سب اکتائے پڑے ہیں۔ کتے وفاداری کا بھرم توڑتے ہوئے مالک پر جھپٹنے لگے ہیں، اپنی درندگی کی ہوس میں گم ہونے لگے ہیں۔

دریاوؤں نے جذبات کی مہک کو جزب کرلیا ہے اور کسی گمنام سمندر میں پٹخ دیا ہے۔ اور تخیل ہے کہ انہیں جذبات کی آڑ میں دریا میں چھلانگ لگا کر غرق ہو گیا ہے ،ساتھ اپنے سب سوالوں کو بھی لے ڈوبا ہے۔ خاموشی افسوس میں چنگھاڑے جا رہی ہے، چلائے جا رہی ہے۔

اور اہل اقتدار ؟ ان کا کیا؟

ارے وہ بھی کسی خستہ ہال جھونپڑی میں جا سوئے ہیں۔  مصنف بھی سولی کے سائے میں گردن پھینکے انتظار کر رہا ہے ۔ انتظار سب فقط انتظار ہی کر رہے ہیں ۔مگر کس کا ؟

کچھ پتا نہیں ، نہ مجھے نہ انہیں نہ تمہیں۔ بس اک انتظار ہے لاحاصل انتظار

کورونا وائرس کا جال؛ کووڈ 19 سے بچنے کے لیے کیا لاک ڈاؤن  واحد حل ہے؟

To Top