شام کے معصوم بچوں کی خون آلود تصویریں فوٹو شاپ قرار سوشل میڈيا پر نئی بحث کا آغاز ہو گیا

آج کل سوشل میدیا پر ہر جانب شام کے  صدر بشار الاسد کی جانب سے دمشق کے مشرقی علاقے غوطہ میں ہونے والی بمباری کے نتیجے میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کی تصویریں وائرل  ہیں ۔ان تصاویر کو دیکھ کر پتھر سے پتھر دل انسان کا دل پسیج رہا ہے اور بے ساختہ ان افراد کے لیۓ بددعا نکل رہی ہے جو اس قسم کے ظلم اور جنگی جرائم میں ملوث ہیں ۔

ہر ایک قرآنی آیات اور احادیث کے ذریعے مسلم امہ کی بیداری کے لیے سوشل میڈیا پر کوشش میں مصروف ہے اور اس کے لیۓ ان تصاویر کو تیزی سے شئیر کیا جارہا ہے تاکہ مظلوموں کی مظلومیت س ہر کوئی آگاہی حاصل کر سکے ۔گزشتہ کچھ دن قبل ایسی ہی تصاویر برما کے حوالے سے بھی شئیر کی گئي تھیں ۔

آج جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے اب جنگیں صرف محاذوں پر بارود اور اسلحہ کے ساتھ ہی نہیں لڑی جاتیں بلکہ ان جنگوں کے لیۓ سوشل میڈیا کا بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس جنگ کو پروپیگینڈے کی جنگ کہا جاتا ہے اس جنگ پر بھی قومیں اتنی ہی رقم خرچ کرتی ہیں جتنی کے اسلحہ بارود کی خریداری پر خرچ کرتی ہیں

شام میں وحشت و بربریت کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سے کسی بھی ذی ہوش انسان کو انکار ہیں مگر اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ شام میں ہونے والی جنگ میں بڑی طاقتیں اس طرح ملوث ہیں کہ اس میں جھوٹ اور سچ کا تعین ایک دشوار عمل ہو گیا ہے ۔ کبھی اس جنگ کو مسلکی رنگ دیا جارہا ہے اور کبھی اس جنگ کے حوالے سے ایسی تصاویر پھیلائی جا رہی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

شام کے حوالے سے سوشل میڈیا کی زینت بننے والی تصاویر کے فوٹو شاپ ہونے کے بارے میں کچھ ایسے شواہد سامنے آۓ ہیں جنہوں نے لوگوں کو عجیب مخمصے میں ڈال دیا ہے اور لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ پہلے والی تصاویر درست تھیں یا پھر اب سوشل میڈیا کی زینت بننے والی تصویریں جھوٹی ہیں ۔

ماضی قریب میں شام کے ایک بچے کی تصویر سوشل میڈیا کی زينت بنی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کا واحد فرد ہے جو کہ بمباری سے بچ گیا مگر اب اس بچے کے والد کا ایک ویڈیو پیغام سامنے آیا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ اس کے بیٹے کو میڈیا والوں نے استعمال کیا تھا ۔اور اس کا بچہ کسی قسم کی بمباری کا شکار نہیں ہوا تھا۔

اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد اس بحث نے ایک مسلکی بحث کی حیثیت اختیار کر لی ہے ایک طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ بشار الاسد کا حمایتی ٹولہ لوگوں کی توجہ اس کے ظلم و ستم سے ہٹانے کے لیۓ اس قسم کی تصاویر شئیر کر رہا ہے جب کہ دوسرے ٹولے کا کہنا یہ ہے کہ ان تصاویر کی حقیقت سامنے لانا چاہیۓ تاکہ مسلم امہ انتشار کا شکار ہونے کے بجاۓ اس بات کا تعین کر سکے کہ حقیقت کیا ہے ۔

اس سارے معاملے کی حقیقت کچھ بھی ہو مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک شام میں مختلف قوتوں کی جنگجوئی کے سبب وہاں کی عوام شدید مشکلات کا شکار ہے اور ہمیں اس حوالے سے متحد ہو کر آواز اٹھانی چاہیۓ تاکہ وہاں پر ظلم و بربریت کا سلسلہ رک سکے

 

To Top