پہلے کہا جاتا تھا محبت اور جنگ میں سب جائز ہے اور اب کہا جاتا ہے سیاست اور منافقت میں سب جائز ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ اب منافقت ، سیاست کا دوسرا نام ہے جو جتنی ہوشیاری اور ڈھٹائی سے منافقت کرتا ہے وہ اتنا اچھا اور بڑا سیاسی گھوڑا ہے اور جب اس کی منافقت کھول کر سامنے آجائے تو کہا جاتا ہے یہ ہی تو سیاست ہے۔ دے دیجئیے
پی ایس پی یعنی پاک سر زمین کے رہنما مصطفی کمال صاحب جب آئے یا لائے گئے۔ تو انہوں نے آنے سے پہلے قرآن پاک پڑھا، اسے سمجھا اور اپنے ایمان کو زندہ کیا یا یوں کہہ لیں کہ دوبارہ مسلمان ہوئے۔ اور مصطفی کمال اور ان کے سا تھیوں نے ایم کیو ایم کے تمام رہنماؤں کو وہ سب کہہ دیا جو ایم کیو ایم کے سیاسی مخالفین بھی نہ کہہ سکتے تھے۔ حالانکہمصطفی کمال صاحب کی پہچان بھی ایم کیو ایم تھی۔ اور ان کا سیاسی قد بھی ایم کیو ایم قائد الطاف حسین نے بڑھایا تھا۔
تو کیا ہوا جب ایمان تازہ ہوجائے تو اور بہت کچھ بولا جاسکتا ہے۔ خیر سے یہی ایک بڑی وجہ تھی کہ مصطفے کمال اس مرتبے پر پہنچے کہ وہ آج ایک سیاسی گروہ کی سربراہی کررہے ہیں یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انھیں سربراہی کے لئے چنا گیا اور ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنے محسنوں کی پگڑیا ں اچھالیں البتہ کس حد تک کامیاب ہوئے یہ ابھی بھی زیر بحث ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں میں نے ایک گروپ کہا مگر سیاسی پارٹی کیسے کہوں؟ کیوں کہ آپ نے ابھی تک عوام کو نہ ہی سیاسی منشور دیا ہے اور نہ ہی سیاسی پارٹی کا جھنڈا بنایا ہے اور اگرچہ عوا م میں ان کی سیاسی مہم کو پذیرائی ملی یا نہیں یہ سوال قبل ازقت ہے کیونکہ مشکل سے کمال صاھب کو ڈیڑھ سال ہوا ہے البتہ مایوسی گناہ ہے کمال صاحب کو اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئیے۔
اب آپ کہیں گے مایوسی کیسی؟ تو اس کا جواب بہت ہی آسان ہے کہ آپ نے نشتر پارک میں ایک بڑا سیاسی جلسہ کرنے کی کوشش کی ، اس کے اشتہار پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے لیکن نشترپارک کو بھرنے میں ناکام رہے۔ آپ نے کراچی پریس کلب کے باہر کئی ہفتے دھرنا دیا لیکن عوام کی عدم دلچسپی اور سندھ حکومت کی ہٹ دھرمی کے پاعث آپ کو دھرنا ختم کرنا پڑھا۔ آپ نے ملین مارچ کیا جس میں مشکل سے ۴، ۵ ہزار لوگ شامل تھے ، عام عوام کی طرف سے پذائی نہ ملی اور حالانکہ آپ کے مطالبات سب کے سب جائز تھے اور عوام کے دیرانہ مطالبات تھے۔
مصطفی کمال صاحب جب آپ نے خود کو متعارف کرایا تھا اور کئی پریس کانفریس کیں ، انٹرویوں دیے ٹاک شوز میں بیٹھے تو آپ نے الطاف حسین کو برا بھلا کہا ہی تھا لیکن آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ میں پاکستانی عوام خصوصا مہاجر قوم کو آگاہی دینے آیا ہوں اور میں عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایم کیو ایم کے لوگوں نے مہاجر قوم کو دھوکا دیا ہے۔ الطاف حسین اور اس کے لوگوں نے تمھارا سودا کیا ہے میں تمھارا ہمدرد ہوں میں تمھیں دلدل سے نکالوں گا ۔ میں اب پاکستان کی سیاست کرونگا ، پاکستان کے ہر حصے سے پی ایس پی کے نمائندے کھڑے کرونگا۔ پاکستان کو ملک کے غداروں اور دشمنوں سے بچاؤ نگا۔ پھر ۲۲ اگست کے بعد آپ نے کہا تھا کہہ فاروق ستار ایک بزدل اور ڈرپوک انسان ہے ، یہ الطاف حسین کا ایجنٹ ہے یہ کیا ایم کیو ایم چلائے گا۔ فاروق ستار اور اسکے ساتھی ملک دشمنوں کے سہولت کار ہیں وغیرہ وغیرہ۔
مصطفی کمال صاحب اب آپ نے فاروق ستار کو مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے ۔ یہ سیاست ہے یا منافقت، حالانکہ مل کر کام کرنے میں برکت ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ پاکستان لیول کی سیاست کرنے آئے تھے اگر آپ کو مل کر کام کرنے کا خیال آیا تو یہ دعوت آپ پاکستان پیپلز پارٹی کو دیتے، مسلم لیگ کو دیتے، تحریک انصاف کو دیتے یا جماعت اسلامی کو دیتے ، یہ وہ جماعتیں ہے جو پاکستان بھر میں کا م کر رہی ہیں۔ ان کے ملک کے ہر کونے میں سیاسی اور تنظیمی یونٹ موجود ہیں۔ فاروق ستار ہی آخر کیوں؟ یہ تو صرف سندھ کے شہری علاقوں تک محدود ہیں، یہ تو لسانیت کی بات کرتے ہیں، یہ تو شاید ملک شمنی کے آلہ کار تھے۔
آپ ہی نے کہا تھا یہ چھوٹو گینگ ہے، اب فاروق ستار کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بات عوام سمجھ نہیں پا رہے ہیں ۔ البتہ عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ کیا آپ سمجھ رہے ہیں کہ فاروق ستار عوام میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور آئندہ الیکشن میں کوئی اپ سیٹ کرسکتے ہیں یا مصطفی کمال صاحب آپ اپنی سیاسی بقاء کے لئے فاروق ستار سے ملنا چاہتے ہیں کیونکہ شاید آپ کو لگتا ہے کہ شاید آپ عوام میں جگہ بنانے میں ناکام ہوگئے ہیں اور جو تھوڑی بہت مقبولیت تھی شاید وہ بھی دن بہ دن کم ہورہی ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا آپ الطاف حسین کی نمائندگی تو نہیں کر رہے ہیں کہ فاروق ستار اور ان کی ٹیم آپ کے ساتھ مل کر کام کرے اور مہاجر عوام ان کے عمل سے ناراض ہوجائے اور فاروق ستار اور ایم کیو ایم کو مسترد کر کے الطاف حسین اور ان کے نمائندوں کو ہر سطح پر پذائی ملے۔
مصطفی کمال صاحب ! یہ سوال عام عوام کے ہیں ، میں معذرت چاہتا ہوں۔