شہید کیپٹن حسنین کے والد کے نے سب کو رلا دیا

کیپٹن حسنین جن کا تعلق ننکانہ شریف سے تھا، اتوار کی صبح کرم ایجنسی میں دہشت گردوں کی جانب سے بچھائی جانے والی بارودی سرنگ کے دھماکے کے نتیجے میں اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ شہادت کے درجے پر فائز ہوۓ ۔ انہوں نے تین سال قبل ہی بحیثیت انجینئر آرمی میں کمیشن حاصل کیا تھا ۔

ان کے والد ننکانہ شریف ہی میں ایک اسکول ٹیچر تھے ۔کیپٹن حسنین کی دو سال قبل شادی ہوئی تھی ۔سوگواروں میں ان کے ماں باپ اور بیوی کے علاوہ ایک بیٹا بھی شامل ہے جس پل ان کی لاش ان کے آبائی علاقے میں لائی گئی تو لگا کہ پورا ننکانہ شریف شہید کے استقبال کے لۓ امڈ آیا ۔

https://www.facebook.com/siasat.pk/videos/10154883977646766/

ننکانہ شریف کی آبادی کا ایک بڑا حصہ سکھوں پر مشتمل ہے جو پھولوں کی پتیاں لۓ شہید کے استقبال کے لۓ موجود تھا ۔اس پل کیپٹن حسنین اس پورے شہر کا وہ بیٹا تھا جس نے ان سب کے سر کو فخر سے بلند کر دیا ۔ انہوں نے اس جنازے پر اتنے پھول برساۓ کہ پھول بھی اپنی تقدیر پر رشک کر اٹھے ۔

جس پل اس جواں کا لاشہ اس کوچے میں پہنچا جہاں اس کا بچپن اس کی جوانی گزری ،جس گلی سے وہ سر پر سہرا باندھ کے نکلا تھا ۔جس گلی کے مکینوں میں اس نے اپنے بیٹے کی پیدائش کی مٹھائی تقسیم کی تھیں  ۔اس گلی کے سب لوگ آج اس شہید کے استقبال کے لۓ اس باپ کے ہمراہ موجود تھے ۔جو اپنے اس بیٹے کی آمد کا منتظر تھا جس کو اس نے بہت پیار سے پروان چڑھایا تھا ۔

کیپٹن حسنین تو اپنے باپ کے بڑھاپے کا سہارا تھا ۔اس کے باپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ وہ ایک دن اپنے بیٹے کے تابوت کی آمد کا اس طرح انتظار کرے گا ۔ پھر اس کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارے گا  ۔ قیامت کے پل تھے وہ جب اس بوڑھے باپ نے، جس کے کندھوں پر اس کے جوان فرزند کے لاشے کا بوجھ تھا ، سیدھے کھڑے ہو کر سلامی پیش کی ۔ایک پل کے لۓ یہ منظر دیکھ کر لگا کہ یہ کمزور دل سینے کےپنجرے کو پھاڑتے ہوۓ باہر نکل آۓ گا ۔

سلامی کے لۓ وہ ہاتھ قوم کے اس فرزند کے لۓ اٹھے تھے جس نے اپنی جان اس پاک سرزمین کی حفاظت میں قربان کی تھی ۔ سلامی کے یہ ہاتھ اس بیٹے کے لۓ اٹھے تھے جس نے ایک باپ کی تربیت اور تعلیم کا حق ادا کر دیا تھا ۔ سلامی کے یہ ہاتھ اس جواں کے لۓ اٹھے تھے جس نے دشمن کو یہ بتا دیا تھا کہ اس قوم کا ہر جواں اپنے فرض کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہیں برتے گا ۔

سلامی کے بعد جو منظر ہماری آنکھوں نے دیکھا وہ ایک باپ کا اپنے بیٹے کو نذرانہ تھا ۔کیپٹن حسنین کے والد سلامی پیش کرنے کے بعد بے ساختہ اس تابوت کی جانب بڑھے ،جس میں ان کا بہادر بیٹا محوۓ خواب تھا ،انہوں نے اپنے لب اس تابوت پر رکھ دیۓ۔

با لکل اسی طرح جب ان کا بیٹا پڑھتے پڑھتے تھک کے کتاب ہاتھ میں لۓ سو جاتا تھا تو اس کے والد اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے تھے ۔ جب آرمی کی ٹریننگ کے دوران وہ چھٹیوں پر اپنے گھر آتا تھا اور تھک کر آنکھیں بند کر کے لیٹ جاتا تھا تب بھی اس کے والد اس کی پیشانی کو چوم لیتے تھے ۔

کیپٹن حسنین کے والد نے کہا کہ اگر اللہ نے ان کو سو بیٹے بھی دیۓ ہوتے تو وہ بھی وطن کی راہ میں قربان کر دیتے ۔ آج یہ قوم اس باپ کو سلام پیش کرتی ہے جس نے اپنے بڑھاپے کا سہارا کھو دیا ہے مگر جس کے حوصلے اور ہمت نے اس قوم کی ہمت بڑھا دی ہے

 

To Top