شادی کی پیش کش ٹھکرانا مہنگا پڑ گیا گارڈ نے بس ہوسٹس کی جان لے لی۔ قتل کیسے ہوا ویڈیو میں سب سامنے آگیا

معاشرے میں آج بھی جب کسی گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کے باپ کے کاندھے جھک جاتے ہین حالانکہ اب وقت اور حالات کافی بدلتے جا رہے ہیں مگر اس کے باوجود صنف نازک کے لیۓ لوگوں کا رویہ اب بھی بہت اچھا نہیں ہے ۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایک گروہ ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہر گھر سے باہر نکلنے والی لڑکی یا عورت حیا باختہ یا پھر ایک کمزور شکار ہوتی ہے

عزت کو صرف اور صرف چادر اور چار دیواری میں رہنے والی عورت کا حق سمجھنے والے یہ لوگ گھر سے باہر نکلنے والی عورت کو صرف تفریح طبع کی چیز سمجھتے ہیں ۔ایسا کرتے ہوۓ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بعض اوقات کچھ مجبوریاں ایسی ہوتی ہیں جن کے باعث شریف عورت کو گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ عورت اپنی مجبوریاں کا سودا اپنی عزت کے بدلے کر رہی ہوتی ہے

فیصل آبار کی رہائشی مہوش بھی ایک ایسی ہی بیٹی تھی جس کی عمر تو صرف اٹھارہ سال تھی مگر جس کےاندر احساس ذمہ داری اس سے بہت بڑا تھا ۔ گھر کے اندر موجود دستانے بناتے ہوۓ جب اس نے دیکھا کہ اس کا یہ ہنر اس کے گھر والون کی بھوک نہیں مٹا سکتا تو اس نے اپنی تعلیم کے سفر کو درمیان میں چھوڑ کر لوگوں کے بس میں سفر کی میزبانی کے فرائض انجام دینے کا قیصلہ کیا

بس ہوسٹس کا پیشہ اگرچہ بہت عزت والا نہیں سمجھا جاتا مگر اس کی محدود تعلیم میں اس کو یہی کام مل سکتا تھا وہیں پر ایک سیکیورٹی گارڈ عمر دراز نے اس پر نظر رکھنی شروع کر دی تنگ آکر اس نے وہ کمپنی چھوڑ کر دوسری کمپنی میں نوکری اختیار کر لی تاکہ یکسوئی سے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکے

مگر عمردراز نے یہاں بھی اس کی جان نہیں چھوڑی اور اس نے بھی اسی کمپنی میں نوکری کر لی جہاں پر مہوش نے نوکری کا آغاز کیا تھا ۔ایک دن اس نے موقع کا فائدہ اٹھا کر مہوش کا ہاتھ تھامنا چاہا جس پر مہوش نے نہ صرف مزاحمت کی بلکہ شور بھی مچا دیا جس پر عمر دراز کو اس کا ہاتھ چھوڑنا پڑا

مگر وہ اس بات کو اپنی بے عزتی سمجھا اور اگلے دن جب مہوش اپنے ہاسٹل کی جانب جا رہی تھی تو اس نے ایک بار پھر مہوش کا راستہ روک لیا مزاحمت پر اس نے مہوش کو ہاسٹل کی سیڑھیوں پر گولی مار کر ہلاک کر ڈالا ان تمام واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کام کرنے والی عورت کے ساتھ زیادتی ہوتے دیکھ کر ارد گرد کے لوگ اس طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں جیسے کہ ان کی بہن بیٹیوں کے ساتھ ایسا کبھی  بھی نہیں ہو سکتا ہے

 

To Top