عورت طوائف یا مظلوم

میری شکل ہی میری سب سے بڑی دشمن تھی جس نے ڈالی بری ہی نظر ڈالی ۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا مگر میرے ساتھ تو اللہ نے صرف زیادتیاں ہی کی ہیں مجھ پر کفر کا فتوی لگانے سے قبل اگر آپ میری کہانی جان لیں تو شاید آپ بھی یہی کہیں گے

میری ماں کا انتقال اسی وقت ہو گیا جب میں نے اس دنیا میں پہلا سانس لیا تھا ۔ میرا پہلا سانس میری ماں کا آخری سانس ثابت ہوا تبھی کسی نے میرا نام رکھنے کا نہیں سوچا پیاد ہوتے ہی میرا نام منحوس ۔ڈائن اور چڑیل رکھ دیا گیا ۔ ماں کے کفن دفن سے فارغ ہو کر جب لوگوں کو میرا خیال آیا تو انہوں نے میرے والد کی فورا دوسری شادی کروادی

میری سوتیلی ماں جو میرے نام پر گھر میں آئی تھی مجھے ہی اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی اسے میرا وجود اس گھر میں اپنی سوتن کی یاد دلاتا اور میرا باپ تو ویسے بھی مجھے ڈائن سمجھ چکا تھا جس نے اس کی بیوی کا خون چوس کر اس کو مار ڈالا تھا ۔ میرا بچپن سوتیلی ماں کی مار کے ساۓ میں گزرا ۔ گھر کی کوئی چیز نہ ہو گی جس سے انہوں نے مجھے مارا نہ ہو ۔کم کھا کر ، روکھا سوکھا کھا کر پھر بھی جوانی مجھ پر ایسی ٹوٹ کر آئی کہ جو بھی دیکھتا دیکھتا رہ جاتا

میری سوتیلی ماں کو یہی لگتا کہ میں ہی اس گھر کی غربت کی ذمہ دار ہوں اسی وجہ سے ایک دن اس نے میرا سودا ایک جسم بیچنے والی نائکہ سے کر ڈالا اور میرے باپ کے سامنے کہہ دیا کہ میں گھر سے بھاگ گئی اس طرح اس گھرسے میرا رابطہ ہمیشہ کے لیۓ توڑ ڈالا بلکہ میری قیمت کے بدلے میں ایک خطیر رقم بھی حاصل کر لی

چودہ سال کی عمر میں جو پہلا گاہک مجھے نصیب ہوا وہ کوئی ٹرک ڈرائيور تھا چرس اور افیم کے نشے میں اس نے میرے جسم کا جو حال کیا اس کے بدلے میں میں اگلے آٹھ دن تک بستر سے اٹھنے سے قاصر رہی ۔ اتنا درد تو سوتیلی ماں کی مار سے نہ ہوتا تھا جتنا درد اس بستر پر اس وحشی درندے کے ہاتھوں مجھے ملا

اس کے بعد تو یا تو درد ہونا بند ہو گیا یا پھر مجھے درد برداشت کرنے کی عادت ہو گئی ہر رات کوئی نیا وحشی درندہ ہوتا اپنے انداز سے میرے جسم سے اپنے پیسے وصول کرتا اور چلا جاتا یہ سلسلہ دو سالوں تک جاری رہا یا دو صدیوں تک مجھے یاد نہیں مگر ایک رات میری زندگی میں وہ آیا ۔

وہ بھی میری قیمت ادا کر کے سب کی طرح میرے جسم سے کھیلنے ہی آیا تھا مگر مجھ میں اسے پتہ نہیں کیا نظر آیا کہ اس نے مجھ سے شادی کا وعدہ کر ڈالا مجھے لگا جیسے نشے اور مستی کے عالم میں سب ہی کچھ نہ کچھ بولتے ہیں تو اس نے بھی بول ڈالا ہو گا مگر کچھ دن بعد وہ دوبارہ میرے سامنے اسی سوال کے ساتھ موجود تھا

میں نے زندگی میں کبھی محبت نہیں دیکھی تھی ا س لیۓ میں نہیں جانتی تھی کہ محبت کیا اور کیسی ہوتی ہے بس دل نے کہا کہ اس کی کہی پر یقین کر لو اور میں نے کر لیا ۔ اس ڈیرے سے فرار ہونا ایک ناممکن عمل تھا اس ناممکن کو اس نے کیسے ممکن کیا یہ میں نہیں جانتی میں تو بس اس کا ہاتھ تھامے بادلوں پر پیر رکھے اڑتی جا رہی تھی ۔ مجھے لگا شاید اسی کو محبت کہتے ہیں

وہ مجھے ایک بہت چھوٹے سے دو کمروں کے فلیٹ میں لے آیا اسی نے مجھے بتایا کہ اس کی ایک بیوی پہلے سے ہے مگر اس سے اس کی کوئی اولاد نہیں ہے وہ مجھے علیحدہ سے اس گھر میں رکھے گا اور ہفتے میں ایک دو دن میرے پاس آيا کرے گا ۔ میں تو اپنا گھر اور ایک سہارا پا کر خوشی سے پاگل ہو گئی تھی

میں نے اس گھر کو اپنی محبت سے سجا دیا وہ بھی کبھی کبھار آتا وہ بہت کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی تھا مجھے لگا محبت کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہوں گے ۔ اس دن تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب مجھے پتہ چلا کہ میں اس کے بچے کی ماں بننے والی ہوں اس دن اس کے چہرے پر بھی میں نے مسکراہٹ دیکھی

اس نے میرا بہت خیال رکھا میرے کھانے پینے میرے آرام کا غرض ہر چیز کا بہت خیال رکھا یہاں تک کہ وہ دن آن پہنچا جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا اللہ نے مجھے بات ہی پیاری سی ایک بیٹی سے نوازہ تھا ۔ میں جب گھر آئی اپنی بیٹی کے ساتھ تو مجھے زندگی میں پہلی بار پتہ چلا کہ ماں کیا ہوتی ہے اور ممتا کسے کہتے ہیں

وہ میری بیٹی کی پیدائش کے دوسرے دن میرے پاس آیا اور بیٹی کو گود میں لے کر کہا کہ اس کا اس نائکہ سے صرف ایک سال کا کانٹریکٹ تھا اس کو اولاد چاہیۓ تھی وہ اس کو مل گئی اب میں واپس جا سکتی ہوں میں نے اس سے پوچھا اس بچی کو کون پالے گا اس نے کہا میری پہلی بیوی یعنی سوتیلی ماں ۔

اتنا سننا تھا کہ مجھے وہ تمام مظالم یاد آگۓ جو میرے ساتھ میری سوتیلی ماں نے کیۓ تھے اس کے بعد پہلے تو جھپٹ کر میں نے اس سے اپنی بیٹی کو چھینا اس کے بعد چھریوں کے پے در پے وار کر کے اس کو ختم کو ڈالا میں اس کو چھریاں مارتی رہی ہوش مجھے اس وقت آیا جب خود کو پولیس کی حراست میں پایا

جس بیٹی کو سوتیلی ماں سے بچانے کے لیۓ یہ سب کیا وہ اب بھی سوتیلی ماں کے پاس ہی پل رہی ہے اور میں جیل میں دن کاٹ دہی ہوں کہ نہ جانے مجھے کیا سزا ملتی ہے اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ میرے رب نے جو زندگی مجھے دی وہ بہت سخت نہ تھی ؟؟؟

 

To Top