چار طالبات کی ہلاکت کا ذمہ دار کون؟ وزیر ٹرانسپورٹ یا کوئی اور؟

نو فروری کو کراچی میں مسجد بیت المکرم کے سامنے بس الٹنے سے یونیورسٹی آف کراچی کی چار طالبات ہلاک ہو گئيں ۔ ان کی ہلاکت کے بعد پورے کراچی میں غم و غصے کی فضا پھیل گئی اور دوبارہ سے الزامات لگانے کا موسم آگیا۔

وزیر ٹرانسپورٹ کہتے ہیں کہ اس حادثے کے ذمے دار بس والے ہیں ۔ ٹرانسپورٹر کہتے ہیں کہ اس حادثے کے ذمے دار وزیر بلدیات ہیں جنہوں نے سڑکیں بری طرح کھودی ہوئی ہیں ۔ اور وزیر بلدیات کہتے ہیں کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے وزارت پٹرولیم کا ہے جن کی وجہ سے سی این جی مالکان نے گیس بند کر رکھی تھی ۔

2

میں ایک چشم دید گواہ کے طور پر اس حادثے کے حوالے سے کچھ حقائق بیان کرنا چاہوں گی جس سے امید ہے کہ اصل مسئلے کو جاننے اور سمجھنے میں مدد ملے گی ۔ کراچی کے اندر اگر ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کو دیکھا جاۓ تو وہ نوے فی صد پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہے ۔ حکومت کے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود حکومتی بسیں یا گرین بسیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

بار بار حکومتی احکامات کے باوجود تمام بسیں آج بھی سی این جی سلینڈر لگوا کر چل رہی ہیں ۔ اور چونکہ کراچی میں ہفتے میں تین دن سی این جی کا ناغہ ہوتا ہے لہذا وہ تین دن کراچی کے لۓ ایک سزا کے برابر ہوتے ہیں کیونکہ حکومتی ٹرانسپورٹ تو موجود ہی نہیں اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ بھی سی این جی کے نا غے کے سبب آدھی رہ جاتی ہے ۔

1

اور پھر آغاز ہوتا ہے نطریہ ضرورت کا، جی ہاں عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لۓ ہر کوئی تیار ہو جاتا ہے۔ رکشہ ٹیکسی والوں کا کرایہ ڈبل سے بھی ذیادہ ہو جاتا ہے ۔ اور بس والے بھی اپنی بسوں کو ناجائز حد تک بھرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ لوگوں کو دفتر کالج یونی ورسٹی لازمی طور پر ٹائم پر پہنچنا ہے اس لۓ وہ ہر ذلت برداشت کرنے پر تیار ہو جائیں گے اس لۓ نعرہ لگا دیا جاتا ہے کہ چھت پر چڑھ جاؤ بھائی ،

اگرچہ ہم بھی یہ جانتے ہیں کہ چھت پر مسافر بٹھانا قانونا جرم ہے مگر اس کا بھی علاج ہے جہاں ٹریفک پولیس والا روکے اس کے ہاتھ پر پچاس روپے رکھ لۓ جائیں اور مزید سواریوں کو چھت پر بٹھا لیا جاۓ ۔ اس کے بعد جب بس کو حد سے ذیادہ بھرا جاتا ہے تو اس کے بعد موڑ مڑتے ہوۓ بس الٹے گی ہی ، اور جب وہ الٹے گی تو دروازے پر لٹکتے ہوۓ لوگ تو مریں گے ہی ۔

3

ان سب حالات کو دیکھتے ہوۓ اس وقت سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈھانچے کی تشکیل نو کی جاۓ ۔ آبادی کی تعداد کے حساب سے بسوں کی تعداد انتہائی کم ہے ان کی تعداد کو نہ صرف بڑھایا جاۓ بلکہ سرکاری ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنایا جاۓ جو کہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہے۔

لوگوں کی جانیں بہت قیمتی ہوتی ہیں ۔ان جانوں کے تحفظ کے لۓ فوری طور پر عملی اقدامات کۓ جائیں اور قوانین پر عمل درامد یقینی بنایا جاۓ ،صرف پچاس روپے کے عوض اس کو فروخت نہ کیا جاۓ ۔

To Top