ماضی کی مشہور شاعرہ و صحافی روبینہ پروین ایک جھگی میں رہنے پر مجبور وجہ ایسی کہ سب ہی افسوس کرنے پر مجبور ہو جائیں

شو بز کے بارے میں سب کا یہ ماننا ہے کہ یہ شعبہ انتہائی بے وفا ہے اس اسکرین پر جو سامنے نظر آرہا ہوتا ہے اس کی زندگی اتنی ہی ہوتی ہے اور اس اسکرین سے غائب ہوتے ہی وہ لوگوں کی یادواشت سے اس طرح غائب ہو جاتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کی جانب سے بھی قصہ پارینہ بن جانے والے لوگوں کی بہبود کا بھی کوئی نظام قائم نہین یہی وجہ ہے کہ اس شعبے سے منسلک زیادہ تر لوگ اپنی عمر کے آخری ایام انتہائی کسمپرسی میں گزارتے ہیں

ایسا ہی ایک نام ماضی کی مشہور صحافی اور شاعرہ روبینہ پروین کا بھی ہے جن کو زماںے کے حوادث نے نہ صرف دماغی طور پر مفلوج کر دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے سر سے چھت بھی کھینچ اس کو سڑک کنارے ایک جھونپڑی مین رہنے پر مجبور کر دیا ۔

لاہور کی سڑکون پر بے یارو مدگار روبینہ پروین اپنے وقت کی مشہور صحافی اور مشاعروں کی رونق تھیں جن کو نہ صرف گزشتہ تین سالوں سے ان کے عزیز و اقارب نے چھوڑ دیا ہے بلکہ ان کی سگی بیٹی نے بھی ان کو چھوڑ دیا ہے

اس سارے معاملے کا سب سے درد ناک پہلو یہ ہے کہ اگرچہ روبینہ پروین دماغی طور پر درست نہیں ہیں اس کے باوجود ان کو اپنی اکلوتی ان سے ملنے نہیں آتی ہے دماغی توازن کے درست نہ ہونے کے باوجود روبینہ پروین کا یہ کہنا ہے کہ انہیں اپنی بیٹی دن کے پانچوں وقت یاد آتی ہے

تریپن سالہ روبینہ پروین اج سے بیس سال پہلے صحافتی حلقوں کا ایک برا نام اور مشاعروں کی جان تھی مگر اب لاہور میں چوبر جی کے باہر ایک کٹیا کے اندر زندگی کے دن اس امید کے ساتھ کاٹ رہی ہیں کہ وہ اپنی بقایا زندگی خود جینا چاہتی ہیں یہ ان کی بہادری کی دلیل ہے کہ وہ اب بھی موت کو گلے لگانے کو تیار نہیں ہیں وہ جینا چاہتی ہیں

پھولوں سے دوستی کون کرۓ روبینہ

یہ تو کفن کا سامان ہین مزاروں پر مہکاۓ جاتے ہیں

یہ شاعرہ  روبینہ پروین جس کے دامن مین کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ہے اب بھی اس بات کی امید رکھتی ہیں کہ ارباب اقتدار اس کی اس کسمپرسی کی حالت کو دیکھ کر کوئی نہ کوئی ایسا قدم ضرور اٹھائیں گے جس سے وہ اپنی زندگی کے باقی ایام سکون سے گزار سکیں گی

To Top