میرا سر بری طرح گھوم رہا تھا میں نے اس کے باوجود سر اٹھانے کی کوشش کی تاکہ جان سکوں کہ میں کہاں ہوں اسی پل میری پسلیوں پر پشاوری چپلی پہنے شخص کی لات زور سے آکر لگی اور میں ایک بار پھر منہ کے بل گر گئی اور میرے منہ سے خون جاری ہو گیا
اس لات کے ساتھ ہی پشتو میں مغلظات کا ایک طوفان بھی جاری ہو گیا جس کو سننے سے قبل میں مر جانا بہتر سمجھتی تھی مگر میں نے اگلی لات سے بچنے کے لیۓ اسی میں عافیت جانی کہ میں سر جھکا کر پڑی رہوں
میرا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر سے تھا ہم پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھے میرا بھائی ہم سب بہنوں سے چھوٹا تھا میں نے جب انٹر کے پیپر دیۓ ان دنوں میرے والد کو بخار نے گھیر لیا جو نہ جانے کب ہیپاٹائٹس بی میں تبدیل ہو گیا اور اس سے پہلے کہ ہم ان کے علاج کے لیۓ کچھ کر سکتے وہ ہمیں اس دنیا میں تنہا چھوڑ کر چلے گۓ
امی ہائی بلڈ پریشر اور دل کے عارضے میں مبتلا تھیں ابو کے انتقال کے بعد بالکل ہی ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ گئیں اس پل مجھے ہی حوصلے کا مظاہرہ کرنا پڑا اور ملازمت کی تلاش میں گھر سے باہر پیر نکالنے پڑے والد ایک مزدور تھے اس وجہ سے جمع پونجی تو کوئی تھی نہیں
انٹر پاس لڑکی کے لیۓ نوکریوں کے نام پر چند ہزار کی نوکری ملتی جو گھر کے اخراجات کے لیۓ ناکافی ہوتی اس موقعے پر کسی نے مجھے ایک نوکری کا بتایا جس میں اچھی تنخواہ مل سکتی تھی وہ نوکری بس ہوسٹس کی تھی
میں نے جب اس نوکری کے بارے میں پتہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس میں تنخواہ اچھی مل سکتی ہے مگر اس کی قیمت بہت بڑی ادا کرنی پڑے گی کیوںکہ میرے والد اپنی زندگی میں ہی میری منگنی اپنے دوست کے بیٹے سے کر گۓ تھے مگر ان حالات میں میں شادی نہیں کر سکتی تھی میں نے اپنے منگیتر سے کہہ دیا تھا کہ اگر اس نے مجھ سے شادی کرنی ہے تو اس کو انتظار کرنا پڑے گا ۔وہ اس کے لیۓ راضی بھی تھا
مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں نے اگر بس ہوسٹس کی نوکری شروع کر لی تو تب بھی کیا وہ مجھ سے شادی کرنے کے لیۓ تیار ہو گا یا نہیں میں نے اس سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے مجھے یفین دلایا کہ اسے مجھ پر یقین ہے اور وہ میرا انتظار کرے گا
اس کی محبت اور یقین کے ساتھ میں نے اس نوکری کو اپنے گھر والوں کی خاطر جوائن کرنے کا فیصلہ کر لیا ابتدا میں مردوں کی نظریں اور ان کے ذومعنی فقرے مجھے پریشان کر ڈالتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ میں بہادر ہوتی گئی
پچھلے کچھ دنوں سے پشاور سے ایک آدمی روزانہ اس بس میں نظر آتا جس بس کی ہوسٹس میں ہوتی شروع شروع میں تو میں نے اس کو محض اتفاق سمجھا مگر اس کی کچھ کہتی آنکھیں میری چھٹی حس کو بیدار کرنے کا باعث بن گئیں اور میں نے ڈیوٹی سے ایک ہفتے کی چھٹی لے لی جس دن واپس ڈیوٹی پر آئی وہ آدمی پھر سے وہاں موجود تھا اس بار اس نے میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی جس کو میں نے جھٹک دیا اور اس کے منہ پر دھپڑ رسید کر دیا
جس کے بعد وہ غضبناک ہو کر گاڑی سے اتر گیا اور میں نے اس سے جان چھٹنے پر شکر کیا اس سے اگلے دن جب بس رات کے وقت کسی اسٹاپ پر رکی اور میں بھی واش روم جانے کے لیۓ اتری تو کسی نے پیچھے سے میرے ناک پر رومال رکھ کر مجھے بے ہوش کر دیا اور اب جب ہوش آیا تو میں خود بھی یہ جاننے سے قاصر تھی کہ میں کہاں ہوں مگر جب میں نے اس آدمی کو دیکھا مجھے سب سمجھ آگیا
اس کے بعد اس ایک دھپڑ کی قیمت مجھے اپنی عزت کی صورت میں اتارنی پڑی وہ رات میری زندگی کی سب سے بھاری رات تھی جہاں پہلے میرا لباس تار تار ہوا اور اس کے بعد بار بار میری عزت کی بھی دھجیاں اڑائی گئیں
رات بھر وہ آدمی اس ایک دھپڑ کا بدلہ بار بار مجھے میری ہی نظروں میں بے آبرو کر کے لیتا رہا میرا یونیفارم پھٹ کر ایک جانب گرا ہوا تھا میرے جسم پر جگہ جگہ سگریٹ سے جلاۓ جانے کے نشانات تھے اور میرے جسم کے نازک حصوں کو اس نے بلیڈ سے کاٹ ڈالا تھا
اس کا یہ کہنا تھا کہ جب تم میری نہیں ہو سکتیں تو میں تمھیں اس قابل بھی نہیں رہنے دوں گا کہ تم کسی دوسرے کی ہو سکو وہ قیامت کی رات کب ختم ہوئی مجھے ہوش نہیں جب ہوش آیا تو خود کو جھاڑیوں میں ایک نہر کے کنارے پایا
میری ماں جو پہلے ہی میرے ابو کی موت کے صدمے سے اب تک نہیں نکل پائی تھیں خود میں ان کا سامنا کرنے کی سکت نہیں پاتی تھی لہذا میں نے اسی نہر میں کود کر اپنی زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا
اگلے دنوں کے اخبار میں ایک سہہ کالمی خبر سب نے پڑھی کہ ایک بس ہوسٹس اپنے آشنا کے ساتھ فرار اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کا تبصرہ بھی تھا کہ اسی وجہ سے شریف گھرانے کی بیٹیاں اس شعبے میں نہیں آتی ہیں