ایام حمل کے بارے میں وہ قرآنی آیات اور احادیث جو ہر ماں کے لیے جاننا ضروری ہیں

اللہ نے جنت ماں کے قدموں تلے رکھی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ حالت حمل میں جن تکالیف اور صعوبتوں کا سامنا صرف اور صرف تخلیق کے عمل سے گزرنے کے لۓ کرتی ہے اللہ کی بارگاہ میں اس کی اس برداشت کو انتہائی قدر و منزلت سے دیکھا جاتا ہے اور اس کے انعام کے طور پر اس کے قدموں تلے جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے ۔

ایام حمل میں ایک عورت کی تمام تر توجہ کا محور اس کا ہونے والا بچہ ہوتا ہے اس کی آمد کی خوشی ماں کو وہ تمام تکالیف برداشت کرنے کا حوصلہ دیتی ہیں جس کا سامنا اسے ایام حمل میں کرنا پڑتا ہے ۔اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس کی تعلیمات میں زندگی کے ہر ہر شعبے کے رہنمائی موجود ہے ۔

اسی طرح ایام حمل کے حوالے سے قرآن و سنت میں ایک ماں کے لۓ مکمل رہنمائی موجود ہے جس کے مطابق عمل پیرا ہو کر وہ نہ صرف ان ایام کو صبر اور حوصلے سے گزار سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے آںے والے بچے کی روحانی تربیت کا بھی اہتمام کر سکتی ہے

ایام حمل میں حضرت مریم کی والدہ کے عمل سے رہنمائی حاصل کی جاۓ

حضرت مریم کی پیدائش سے قبل جب ان کو اس بات کی بشارت ہوئی کہ وہ حمل سے ہیں تو انہوں نے اپنے رب کی بارگاہ میں جو دعا مانگی وہ سورہ العمران کی آیت نمبر 35 میں اس طرح درج ہے

جب عمران کی عورت نے کہا اے میرے رب جو کچھ میرے پیٹ میں ہے سب سے آزاد کر کے میں نے تیری نذر کیا سو تو مجھ سے قبول فرما، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے

حصرت مریم کی والدہ کی اس دعا کی قدر و منزلت جاننے کے لۓ اتنا کافی ہے کہ اس دعا کے نتیجے ہی میں اللہ تعالی نے ان کو حضرت مریم کی صورت میں ایسی اولاد سے نوازا جس کی کوکھ سے اللہ نے پیغمبر خدا حضرت عیسی کو جنم دیا ۔ لہذا ایسی تمام مائیں جو حمل کی حالت میں ہوں اس دعا کا ورد باقاعدگی سے کرنے کی عادت اپنائیں تاکہ اللہ ان کو نیک اور صالح اولاد سے نوازے

حمل کی خوشخبری کو محدود لوگوں تک پہنچاؤ

حدیث کی رو سے یہ ثابت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ خوشی کی خبر کو پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے کیونکہ ہر خبر سننے والا دوست نہیں ہوتا (الطبرانی) اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ یہ امر تو ثابت ہے کہ حسد اور بد نظر کا انسان پر برا اثر مرتب ہوتا ہے اور وہ معصوم روح جو ابھی دنیا میں اپنی آمد کی تیاری میں ہوتی ہے اس کو نظر بد سے محفوظ رکھنا ایک ماں ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے لہذا ماں کو چاہۓ کہ حمل کی خبر صرف ان لوگوں تک پہنچاۓ جو کہ اس کی خوشی میں خوش ہوں اور کوئی برا گمان نہ رکھتے ہوں ۔

ایام حمل میں اللہ کے شکر گزار رہیں

یہ بات تو قطعی طور پر ثابت شدہ ہے کہ صرف اللہ کی ذات ہی اس بات پر قادر ہے کہ وہ آپ کو اس قابل بناتی ہے کہ آپ ماں بن سکیں لہذا  آپ اس سارے وقت کے  دوران اللہ کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں تاکہ اللہ کی یہ شکر گزاری آپ سے آپ کے بچے میں منتقل ہو

اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے تو (انسان) میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کرے، میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سورۃ لقمان آیت 14 

حالت حمل میں اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے آسانیاں

اللہ اور اس کے رسول نے حمل کی حالت میں ماں کے لۓ بہت ساری آسانیاں فراہم کی ہیں حدیث میں ہے کہ اللہ نے حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لۓ حکم ہے کہ اگر وہ ضعف میں مبتلا ہیں تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں اور بعد کے دنوں میں گنتی پوری سکتی ہیں ۔

اسی حدیث کی رو سے حاملہ عورت کو معاشرتی ذمہ داریوں میں بھی چھوٹ حاصل ہے

ماں بچے کے لیے دعا کرے

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ شروع کے چالیس دن کے بعد بچہ رحم مادر میں خون کے لوتھڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے پھر اللہ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جو کہ اس بچے کی چار چیزیں تحریر کرتا ہے جن میں پہلی چیز اس کی تقدیر ہوتی ہے دوسری چیز اس کی زندگی تیسری چیز اس کی موت اور چوتھی چیز اس کا مذہب۔  لہذا ہر حاملہ ماں کو چاہۓ کہ اس حالت میں اپنے بچے کے لۓ زیادہ سے زیادہ دعا کریں تاکہ اس کے یہ فیصلے اچھے طریقے سے ہو سکیں

ان تمام احادیث اور احکامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ پاک اس ماں کو جس کے قدموں تلے جنت فائز ہونے کی بشارت دے رہا ہے اس کی ہر ہر پل کی رہنمائی کر رہا ہے تاکہ وہ تربیت کے عمل سے گزر کر آنے والی روح کی بہترین تربیت کر سکے

To Top