پاکستانی والدین خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو نشے کا عادی بنا رہے ہیں

گزشتہ مہینے میں لندن میں ایک تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں کئی ایسے ماہرین نے بھی شرکت کی جن کا تعلق بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ نفسیات سے بھی تھا ۔اس موقعے پر ان ماہرین کی رپورٹس اور انکشافات نے سب کے رونگٹھے کھڑے کر دیۓ ۔ اس کانفرنس کا مقصد ان عوامل کا پتہ لگانا تھا جو آج کے بچے کے تعلیم حاصل کرنے میں اور ان کی متناسب شخصیت سازی میں رکاوٹ بن رہے ہیں ۔

ہانلے اسٹریٹ ریھاب کلینک کی اسپیشلسٹ مینڈی سالگری نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ “میں ہمیشہ یہ کہتی ہوں کہ جب آپ اپنے بچے کو ایک ٹیبلٹ یا اسمارٹ فون دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنے بچے کو ایک گرام حششیش یا ایک بوتل شراب کی لے کر دے دی ” مینڈی کے مطابق اسمارٹ فون ایک نشے کی طرح بچوں کے اعصاب پر سوار ہو جاتا ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں اعصاب کو اتنا ہی نقصان ہوتا ہے جتنا ایک گرام حشیش کے نشے سے ہوتا ہے ۔

والدین اپنےبچوں کو شراب اور دیگر نشہ آور اشیا سے تو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہوۓ تو نظر آتے ہیں مگر موبائل فون کے نشے سے بچانے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی ۔ اس کے علاوہ بچے اس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے سبب اپنے وقت کا بڑا حصہ اسکرین کو تکتے ہوۓ گزارتے ہیں جس سے ان کی زندگی میں توازن کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔

اور اس بچے کے عمل اور ردعمل کی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں ۔اور اسکرین سے نظر ہٹاتے ہی وہ بالکل عادی نشہ بازوں کی طرح ردعمل کا اظہار کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور قابل اعتراض پہلو اس امر کا ہے جس کو مینڈی نے سیکس ٹنیکسٹنگ کا نام دیا ہے اس میں کم عمر بچے نہ صرف جنسی مواد عمر سے پہلے دیکھ لیتے ہیں بلکہ وہ اپنے دوسرے ہم عمر بچوں کے ساتھ اس کو شئیر بھی کرتے ہیں ۔

اس طرح کی سرگرمیوں کے باعث بھی بچوں کی ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے جس کا اثر ان کی جسمانی صحت پر بھی پڑتا ہے ۔ ایک اسکول طالبہ کے مطابق اپنی برہنہ تصویر کو شئیر کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے ۔البتہ اس بات کا والدین کو پتہ چل جانا معیوب ہے لہذا والدین سے چھپانا چاہیۓ ۔

اس طرح کی سوچ کے حامل بچوں پر تحقیق کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ لندن میں جرائم میں ملوث دو ہزار بچوں کے جرائم کا سبب وہ مواد تھا جو کہ وہ اکثر اپنے اسمارٹ فون کی اسکرین پر دیکھتے تھے ۔ اس تحقیق کے بعد پاکستانی والدین کو اس امر پر سوچنا چاہۓ کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ۔

نوۓ فی صد والدین اپنے بارہ سے پندرہ سالوں کی درمیان کی عمر کے بچوں کو اس بات سے روک نہیں سکتے کہ انہیں کتنا وقت موبائل اسکرین کے ساتھ گزارنا چاہۓ ۔ والدین کی یہ بے بسی آںے والے دور میں ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں ۔ اس بات پر تمام پاکستانی والدین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیۓ کہ وہ اپنے بچوں کو ٹیکنالوجی کے نام پر نشے کا عادی بنا رہے ہیں ۔

To Top