مشترکہ خاندانی نظام قرآن و حدیث کی رو سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے ؟

مشترکہ خاندانی نظام یا جوائنٹ فیملی سسٹم ، ایک ایسا نظام ہے جو بر صغیر کے گھرانوں میں صدیوں سے رائج ہے۔ پاک و ہند کے لوگ فخریہ طور پر اس نظام کو نہ صرف اپناتے ہیں۔ بلکہ مغربی طرز معاشرت کے سامنے اپنے مضبوط خاندانی نظام کی مثالیں پیش کر کے مغربی بے راہ روی کا بنیادی سبب اسی خاندانی نظام کے نہ ہونے کو گردانتے ہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام کی تاریخ کوئی بہت پرانی نہیں ہے۔ اسلامی طرز معاشرت میں اس کی نشانیاں ہمیں کہیں بھی قرآن وسنت سے نظر نہیں آتی ہیں۔ اگر ہم اپنے پیارے نبی کی زندگی کا مطالعہ کریں تو نظر آتا ہے کہ اپنی بیٹی بی بی فاطمہ کی شادی کے موقعے پر بھی انہوں نے ان کو ایک علیحدہ گھر دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہمارے پیارے نبی نے اپنی ہرزوجہ کو علیحدہ رکھا۔

اگر اسلام سے مشترکہ خاندانی نظام ثابت نہیں ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے آیا؟ اور یہ ہمارے گھروں میں کیسے رائج ہوا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سراسر ہندوانہ نظام ہے۔ اور اس کے پیچھے ہندو بنیۓ کی سوچ کارفرما ہے۔

اس نظام کے رائج ہونے کا بنیادی سبب ہندو طرز معاشرت میں یہ تھا کہ اس کے ذریعے وہ کئی گھروں کے افراد ایک ساتھ خرچے کو تقسیم کر لیتے تھے اس سے ان کو اخراجات میں بچت ہوتی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ ہندو معاشرے میں محرم اور نامحرم کو کوئی نظریہ نہیں ہے۔ لہذا ان کے معاشرے کے مطابق نا محرم کے ساتھ رہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

اسلام جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کی طرز معاشرت جدا ہے۔ اس میں نامحرم سے سختی سے پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو، ایک انصاری نے عرض کیا: یا رسول اللہ حمو(دیور) کے بارے میں آپ ﷺکا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ حمو(دیور) تو موت ہے۔

جب کہ مشترکہ خاندانی نظام میں کسی عورت کے لۓ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے دیور یا سسر سے پردہ کر سکے۔ دوسرا پہلو جو اس امر میں سب سے زیادہ نقصاندہ ہے اور اس کا خمیازہ نسلوں تک بھگتنا پڑتا ہے، وہ ہے بچوں کی تربیت۔

عموما ایسے گھرانے جو معاشی طور پر غیر مستحکم ہوتے ہیں وہاں ہر خاندان کے پاس رہائش کے نام پر صرف ایک کمرہ ہوتا ہے جس میں میاں بیوی اور بچے رہتے ہیں۔ عمر کے ایک خاص دور میں جب بچوں کو ماں باپ سے علیحدہ سلانے کا حکم ہوتا ہے۔جگہ کی کمی کے سبب اس حکم کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ ماں باپ کے ساتھ سونے کے سبب بچوں کو زندگی کے ان پہلوؤں سے بھی وقت سے قبل آشنائی ہو جاتی ہے جو ان کی ذہنی اور جسمانی تربیت کے لۓ انتہائی مضر ہوتے ہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام کے سبب ایک عورت پر گھر کی ذمہ داریاں وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ بڑھنے کے بجاۓ ایک دم بڑھ جاتی ہیں۔ جن کے سبب اس کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور وہ وقت سے قبل بےزار ہو جاتی ہے۔ جس سے اس کے اور اس کے شوہر کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان تمام عوامل کے سبب اسلام نے مشترکہ خاندانی نظام کی کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔ عرب معاشرے کو جس کو اسلامی طرز معاشرت کی مثال کے طور پر لیا جاتا ہے وہاں بھی شادی سے قبل علیحدہ گھر کی شرط لازم ہے۔

مشترکہ خانداںی نظام کی حمایت کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرز معاشرت کے سبب ہمارے بزرگ اپنی زندگی کا آخری وقت آرام سے اپنے بچوں کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ مگر یہ یاد رکھیں کہ خدمت کرنے کے لۓ ایک ہی گھر میں رہنا ضروری نہیں ہوتا۔ جن کے دلوں میں حقوق العباد کا خوف ہوتا ہے وہ دور رہ کر بھی پاس ہوتے ہیں۔

To Top