افسانہ “بُرقعے” – سعادت حسن منٹو (حصہ دوم)

’’بدتمیز کہیں کے۔۔۔۔۔۔ شرم نہیں آتی تمہیں؟‘‘

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔۔۔۔۔۔ اور ظہیر کے محبت بھرے خط کے کاغذ سڑک پر پھڑپھڑانے لگے۔ وہ سخت حیرت زدہ تھا کہ وہ لڑکی جس نے یہ کہا تھا کہ مجھے اپنی لونڈی سمجھیے، اتنی رعونت سے کیوں پیش آتی ہے۔ لیکن پھر اس نے سوچا کہ شاید یہ بھی اندازِ دلربانہ ہے۔

دن گزرتے گئے، مگر ظہیر کے دل و دماغ میں یاسمین کے یہ الفاظ ہر وقت گونجتے رہتے تھے۔’’بدتمیز کہیں کے۔۔۔۔۔۔ شرم نہیں آتی تمہیں‘‘۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسے اس رقعے کے الفاظ یاد آتے جس میں یہ لکھا تھا۔’’ مجھے اپنی لونڈی سمجھیے۔‘‘

ظہیر نے اس دوران میں کئی خط لکھے اور پھاڑ ڈالے، وہ چاہتا تھا کہ مناسب و موزوں الفاظ میں یاسمین سے کہے کہ اس نے بدتمیز کہہ کر اس کی اور اس کی محبت کی توہین کی ہے۔ مگر اُسے ایسے الفاظ نہیں ملتے تھے۔ وہ خط لکھتا تھا، مگر جب اسے پڑھتا تو اسے محسوس ہوتا کہ وہ غیر معمولی طور پر درشت ہے۔

ایک دن جب کہ وہ باہر سڑک پر اپنی سائیکل کے اگلے پہیے میں ہوا بھر رہا تھا۔ ایک لڑکا آیا، اور اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ دے کر بھاگ گیا۔ ہوا بھرنے کا پمپ ایک طرف رکھ کر اس نے لفافہ کھولا، ایک چھوٹا سا رقعہ تھا۔ جس میں یہ چند سطریں مرقوم تھیں:

’’آپ اتنی جلدی مجھے بھول گئے۔۔۔۔۔۔ محبت کے اتنے بڑے دعوے کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔۔۔ آپ بھول جائیں تو بھول جائیں۔۔۔۔۔۔ آپ کی کنیز آپ کو کبھی بھول نہیں سکتی۔‘‘

ظہیر چکرا گیا۔۔۔۔۔۔ اس نے یہ رقعہ بار بار پڑھا۔۔۔۔۔۔ سامنے دیکھا تو یاسمین ٹانگے میں سوار ہورہی تھی۔ سائیکل وہیں لٹا کر وہ اس کی طرف بھاگا۔ ٹانگہ چلنے ہی والا تھا کہ اس نے پاس پہنچ کر یاسمین سے کہا:

’’تمہارا رقعہ ملا ہے۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیے تم اپنے کو کنیز اور لونڈی نہ کہا کرو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔‘‘

یاسمین کے برقعے کی نقاب اچھلی۔ بڑے غصے سے اس نے ظہیر سے کہا۔’’ بدتمیز کہیں کے۔۔۔۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔۔۔۔ میں آج ہی تمہاری ماں سے کہوں گی کہ تم مجھے چھیڑتے ہو۔‘‘

ٹانگہ چل ہی رہا تھا۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔۔۔۔۔۔ ظہیر رقعہ ہاتھ میں پکڑے سوچتا رہ گیا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ مگرپھر اسے خیال آیا کہ معشوقوں کا رویہ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے وہ سر بازار اس قسم کے مظاہروں کو پسند نہیں کرتے۔ خط و کتابت کے ذریعے ہی سے، کہ یہ ایک خاموش طریقہ ہے۔ ساری باتیں طے ہو جایا کرتی ہیں۔

چنانچہ اس نے دوسرے روز ایک طویل خط لکھا اور جب وہ کالج سے واپس آرہا تھا، ٹانگے میں یاسمین کو دیکھا۔ وہ اتر کر کرایہ ادا کر چکی تھی اور گھر کی جانب جارہی تھی خط اس کے ہاتھ میں دے دیا۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کوئی احتجاج نہ کیا۔ ایک نظر اس نے اپنے برقعے کی نقاب میں سے ظہیر کی طرف دیکھا اور چلی گئی۔

ظہیر نے محسوس کیا تھا کہ وہ اپنی نقاب کے اندر مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اور یہ بڑی حوصلہ افزا بات تھی۔۔۔۔۔۔ چنانچہ دوسرے روز صبح جب وہ سائیکل نکال کر کالج جانے کی تیاری کررہا تھا، اس نے یاسمین کو دیکھا۔ شاید وہ ٹانگے والے کا انتظار کررہی تھی۔۔۔۔۔۔ داہنے ہاتھ میں کتابیں پکڑے تھی۔ بایاں ہاتھ جھول رہا تھا۔

میدان خالی تھا، یعنی اس وقت بازار میں کوئی آمدورفت نہ تھی۔ ظہیر نے موقعہ غنیمت سمجھا، جرأت سے کام لے کر اس کے پاس پہنچا اور اس کا ہاتھ جو کہ جھول رہا تھا، پکڑ لیا اور بڑے رومانی انداز میں اس سے کہا۔’’ تم بھی عجیب لڑکی ہو۔۔۔۔۔۔ خطوں میں محبت کا اظہار کرتی ہو اور بات کریں تو گالیاں دیتی ہو۔‘‘

ظہیر نے بمشکل یہ الفاظ ختم کیے ہوں گے کہ یاسمین نے اپنی سینڈل اتار کر اس کے سر پر دھڑادھڑ مارنا شروع کردی۔۔۔۔۔۔ ظہیر بوکھلا گیا۔۔۔۔۔۔ یاسمین نے اس کو بے شمار گالیاں دیں۔مگر وہ بوکھلاہٹ کے باعث سن نہ سکا۔ اس خیال سے کہ کوئی دیکھ نہ لے، وہ فوراً اپنے گھر کی طرف پلٹا۔ سائیکل اٹھائی اور قریب تھا کہ اپنی کتابیں وغیرہ اسٹینڈ کے ساتھ جما کرکالج کا رخ کرے کہ ٹانگہ آیا۔ یاسمین اس میں بیٹھی اور چلی گئی۔ ظہیر نے اطمینان کا سانس لیا۔ اتنے میں ایک اور بر قع پوش لڑکی نمودار ہوئی، اسی گھر میں سے جس میں سے یاسمین نکلی تھی۔۔۔۔۔۔ اس نے ظہیر کی طرف دیکھا اور اس کو ہاتھ سے اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔ مگر ظہیر ڈرا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ جب لڑکی نے دیکھا کہ ظہیر نے اس کا اشارہ نہیں سمجھا تو وہ اس سے قریب ہو کے گزری اور ایک رقعہ گرا کر چلی گئی۔۔۔۔۔۔

ظہیر نے کاغذ کا وہ پُرزہ اٹھایا، اس پر لکھا تھا:

’’تم کب تک مجھے یونہی بے وقوف بناتے رہو گے؟۔۔۔۔۔۔ تمہاری ماں میری ماں سے کیوں نہیں ملتیں۔۔۔۔۔۔ آج پلازا سینما پر ملو۔

پہلا شو ۔۔۔۔۔۔ تین بجے۔۔۔۔۔۔ پروین!‘‘

To Top