مدرسے میں دو بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد مار ڈالنے والے قاری کی کہانی

انسانی فطرت میں بھوک کا عنصر اللہ نے اس کی جسمانی ضروریات کی تکمیل کے لۓ رکھا ہے۔ بھوک کی ایک قسم تو وہ ہوتی ہے جس کو ہم کھانے پینے کی اشیا سے پورا کرتے ہیں۔ ویسے تو یہ بھوک بھی بہت خطرناک ہوتی ہے۔ تبھی تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھوکے انسان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ مگر ایک اور بھوک بھی ہوتی ہےاور وہ ہوتی ہے جنسی بھوک ۔ جس کا ادراک انسان کو اس کی بلوغت کے بعد ہونا چاہیے ۔

اسی وجہ سے قدرت نے یہ نظام رکھا ہے کہ انسان کو اپنی اس بھوک کا احساس بالغ ہونے کے بعد ہوتا ہے تاکہ وہ اس کی تکمیل کے لۓ اپنی عقل و شعور کو استعمال کر کے اس کی تکمیل جائز ذرائع سے کر سکے۔ مگر بعض اوقات چند ناعاقبت اندیش لوگوں کے سبب کسی بھی نو عمر کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر اس کے شعور کے پردوں کو وقت سے پہلے پھاڑ دیا جاتا ہے ۔

ایسے انسان ایک جانب تو شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب وہ اپنی جنسی ضروریات کی تکمیل کے لۓ ایسے راستوں کا انتخاب شروع کر دیتے ہیں۔ جو کہ ان کے لۓ بھی خطرناک ہوتے ہیں۔ اور دوسروں کے لۓ بھی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ کراچی کے ایک مدرسے میں پیش آیا۔

https://www.facebook.com/TheNangaTruth/videos/187973915095172/

تفصیلات کے مطابق چند ماہ قبل اس مدرسے کا ایک معصوم طالب علم لاپتہ ہو گیا تلاش کے بعد اس کی لاش قریبی علاقے میں پائی گئی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق اس کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ مگر چھ ماہ تک اس ے قاتلوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ چھ ماہ کے بعد اسی مدرسے کے ایک اور طالب علم کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور اس کو بھی جنسی زیادتی کے بعد ہلاک کر دیا گیا ۔

پولیس کی تفتیش کے بعد جب مدرسے کے اسا تذہ سے پوچھ تاچھ کی گئی تو جو انکشافات ہوۓ انہوں نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان بچوں کا قاتل کوئی اور نہیں ان ہی کا استاد تھا۔ جو کہ اسی مدرسے میں حفظ کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد بچوں کو تجوید کی تعلیم دے رہا تھا۔

ملزم کے اقبالی بیان کے مطابق چونکہ اس کے تعلیمی ادوار کے دوران اس کے ساتھ بھی اس کے اساتذہ جنسی زیادتی کرتے تھے لہذا اس نے بھی اپنے طالب علموں کے ساتھ جنسی زیادتی کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپنے اقبالی بیان میں اس کم عمر استاد نے جو اسی مدرسے سے حفظ کی تعلیم مکمل کرچکا تھا بتایا،کہ اس نے پہلے ایک معصوم بچے کے ساتھ جنسی زیادتی جیسا مزموم عمل کیا۔

جنسی زیادتی کرنے کے بعد اس ڈر سے کہ وہ بچہ اوروں کو اس بارے میں بتا نہ دے اس نے اس کومار ڈالا۔ اس کی ہمت اس عمل کے بعد اور بڑھ گئی جب اس نے دیکھا کہ چھ مہینے بعد بھی کسی کو اس پر شک نہیں ہوا۔ وہ اپنی اس جنسی بھوک کی تکمیل کے لۓ جس کو اس کے اساتذہ نے وقت سے پہلے بیدار کر دیا تھا ایک وحشی درندہ بن چکا تھا۔

اس کے بعد اس نے مدرسے کے ایک اور طالب علم کا انتخاب کیا اور اس کے ساتھ بھی زیادتی کرنے کے بعد اس کو بھی بے دردی سے ہلاک کر دیا۔ مگر اس بار وہ قانون کے ہاتھوں سے بچ نہ سکا اور گرفتار کر لیا گیا۔ اس کی گرفتاری کے بعد ہونے والے انکشافات کے بعد ہونا تو یہ چاہۓ کہ ان دیگر اساتذہ کو بھی گرفتار کیا جاۓ جنہوں نے اس کی طالب علمی کے دور میں اس کے ساتھ زیادتی کی۔ تاکہ آئندہ ایسے کسی وحشی درندے کے بننے کے عمل کو روکا جا سکے

To Top