‘بیٹی کو پراۓ گھر بھیجتے ہوۓ ماں باپ اپنے گھر کے دروازے اس پر کیوں بند کر دیتے ہیں ‘ایک بیٹی کا سوال

رخصتی کے وقت جب میرے ابو نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ رکھ کر یہ کہا کہ بیٹا میں تمھیں جس گھر بھجوا رہا ہوں اس گھر سے اب تمھارا جنازہ ہی آنا چاہیۓ اور نہ جانے کون سی گھڑی تھی کہ میں نے ابو کی اس بات کو اپنے پلو سے باندھ لیا اذیتوں کی دھوپ میں جس پل میرے جسم پر میراشوہر اپنے جوتوں سے ٹھڈے لگتا  میرے بالوں سے کھینچ کر گھسیٹتے ہوۓ سخت سردی میں رات کی تاریکی میں مجھے گھر سے باہر دھکیل کر دروازہ بند کر ڈالتا تب بھی میں یہی سوچتی کہ میں کیسے زندہ حالت میں ماں باپ کے گھر چلی جاؤں

شادی کے شروع کے چند دن جب سب لڑکیوں کے خواب کی طرح گزر جاتے ہیں میرے لیۓ وہ دن بھی ایک بد ترین خواب ہی تھے میرے شوہر نے گھونگھٹ اٹھاتے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ میں اس کو پسند نہیں آئی اور یا شادی صرف اس کے باپ اور بہنو کی ضد کا نتیجہ ہے ۔ دوسرے شہروں سے آۓ ہوۓ مہمانوں کے سبب وہ رات میرے ساتھ کمرے میں گزارنے پر مجبور تھے

اسی مجبوری کے کسی کمزور پل میں انہوں نے میرے ساتھ وہ تعلق بھی قائم کر لیا تھا جس کے بعد مجھے امید پیدا ہو گئی تھی کہ شاید کبھی نہ کبھی میں اپنی محبت اور ایثار سے جیتنے میں کامیاب ہو جاؤں گی اسی وجہ سے میں نے اپنے میکے والوں کو اس حوالے سے کبھی کچھ بھی نہیں بتایا

یہاں تک کہ میرے شوہر نے کبھی بھی میرے والدین کے گھر قدم نہیں رکھا جس پر میں نے ان کی مصروفیات کا بہانہ بنا کر پردہ ڈال دیا اسی اثنا میں میرے والد کا انتقال ہو گیا ان کے جنازے پر بھی میرے شوہر نے شرکت نہ کی جس پر میں نے ان کے دوسرے شہر ہونے کا کہہ کر پردہ ڈال دیا

شادی کے ابتدائی دنوں کے بعد سے انہوں نے میری طرف دیکھنا مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیا وہ رات کی تاریکی میں میرے سونے کے بعد کمرے میں آتے اور مجھے سوتا دیکھ کر بیڈ کے دوسرے کونے پر سو جاتے مگر میں خوش تھی کہ میرے جسم میں ان کی امانت پرورش پا رہی تھی اور مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن میں ان کو ضرور جیت لوں گی

اب انہوں نے بات بات پر مجھ پر ہاتھ اٹھانا بھی شروع کر دیا تھا ان کی مار کھاتے ہوۓ بھی میرے ذہن میں یہی سوچ ہوتی کہ مجھے اس گھر سے نہیں نکلنا کہیں میری بے صبری میرے ماں باپ کی تربیت پر سوال نہ اٹھا دے میرے والد نے میرا حق مہر دس لاکھ روپے لکھوایا تھا اتنا خطیر رقم میرے سکھ کا سبب بننے کے بجاۓ میری اذیتوں میں اضافہ کر گئی

میرے شوہر مجھے مارتے ہوۓ یہی کہتے تھے کہ میں تو تمھیں طلاق نہیں دے سکتا میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں تم خود ہی گھر چھوڑ دو مگر میں کیسے گھر چھوڑ دیتی مجھے تو مرنے سے پہلے میرے باپ نے یہ کہہ کر رخصت کیا تھا کہ اب اس گھر کے دروازے تمھارے لیۓ بند ہو چکے ہیں

اذیتوں کے دن رات بہت لمبے ہوتے ہیں مگر گزر ہی جاتے ہیں اسی طرح میری کوکھ میں پلتے بچے کے بھی دنیا میں آنے کے دن قریب آتے جا رہے تھے میں تین چار ماہ میں جب بھی میکے جاتی میری امی مجھ سے سب کا پوچھتی اور میں سب اچھا ہے کا رٹا رٹایا سبق ان کو سنا دیتی

اس دن جب رات کی تاریکی میں مجھے درد شروع ہوۓ تو میں نے اپنے برابر لیٹے شوہر کو جگا کر اپنی تکلیف کے بارے میں بتایا مگر میری اس بات نے ان کو اس حد تک غضب ناک کر دیا کہ انہوں نے مجھے اپنی جوتی سے دھنک کر رکھ دیا اس پل مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جوتی کی ضرب کا درد زیادہ ہے یا اس معصوم کے دنیا میں آنے کا درد زیادہ ہے مگر بہرحال دونوں دردوں کی شدت نے مجھے ہوش سے عاری کر دیا

جب ہوش آیا تو پتہ چلا کہ اللہ تعالی نے مجھے ایک بیٹے سے نوازہ ہے جھگڑے کی اواز سن کر میری نند اور میرے سسر جاگ گۓ تھے جو مجھے اٹھا کر ہسپتال لے گۓ جہاں آپریشن کے بعد میں نے ایک بیٹے کو جنم دیا مگر اس کے باپ نے اس کے دنیا میں آنے کی خبر سن کر بھی اس کی شکل تک دیکھنے کی کوشش نہ کی

میری امی میرے ساتھ تھیں اور میری چوٹوں کے نشان دیکھ کر سب کچھ سمجھ چکی تھیں وہ اس سب سے بھی واقف ہو چکی تھیں جو کہ میں اب تک ان سے چھپاتی آئي تھی ۔ ان کی آنکھوں سے بھی آنسو نہیں سوکھ رہے تھے میری نند کا بدترین رویہ دیکھ کر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ پورا سال تم نے ہمیں کچھ بتایا کیوں نہیں

اب میری ماں چاہتی ہیں کہ وہ مجھے اپنے ساتھ ہمیشہ کے لیۓ اپنے گھر لے جائيں میری روح گزشتہ سال کی اذیتوں کے سبب میرے اندر مر چکی ہے میں اب ایک زندہ لاش  سے زیادہ نہیں کیا میں اب اپنا جنازہ اٹھا کر اپنے ماں باپ کے گھر جا سکتی ہوں ؟؟؟؟

To Top