ایک بہن کی اپنی سگی بہن پر ظلم کی سچی داستان

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

انسانی تعلقات میں رشتوں کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ خون کے رشتوں کی محبت دنیاوی ہر رشتے اور تعلق سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی نے عورتوں کو محبت کے خمیر سے پیدا کیا ہے اسی سبب اس کے اندر ایثار اور قربانی کا جزبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے ۔

مگر دنیا کے ان عجائبات میں کچھ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو خود غرضی اور حسد میں اس درجے کو چھو لیتی ہیں جہاں سے واپسی کبھی ممکن نہیں ہوتی ۔ میرا شمار بھی عورتوں کے اسی گروہ سے ہوتا ہے ۔ میں وہ راندہ درگاہ عورت ہوں جس نے اپنے کرم سے اپنی ہی بہن کو برباد کر ڈالا ۔

میں اور میری بہن اپنے ماں باپ کی دو ہی اولادیں تھیں وہ مجھ سے صرف ایک ہی سال چھوٹی تھی اس کی پیدائش کے بعد کسی پیچیدگی کے سبب میری ماں دوبارہ سے ماں بننے کی صلاحیت کھو بیٹھی تھی ۔ اسی وجہ سے گھر بھر کی چھوٹی ہونے کے سبب نہ صرف وہ سب کی لاڈلی تھی بلکہ صورت شکل میں بھی مجھ سے بہتر تھی ۔

بہنوں کے بیچ جو فطری طور پر جلن اور حسد کا جزبہ اوپر تلے کے ہونے کے سبب تھا وہی جزبہ میرے اندر بھی تھا ۔ جو کہ وقت کے ساتھ اس لیۓ بھی بڑھتا گیا کہ میری یہ بہن پڑھائی میں بھی میرے مقابلے میں بہت اچھی تھی ۔

اسی سبب اسکول والے بھی پہلے تو اس کی خوبصورتی اور پھر اس کی ذہانت کے سبب اس کو مجھ پر فوقیت دیا کرتے تھے ۔ ہر جانب سے ہونے والی اس پیش قدمی کے روعمل کے طور پر میں بہت ضدی اور بدتمیز ہوتی جا رہی تھی جس کی وجہ سے امی ابو اکثر نہ صرف مجھے ڈانٹتے بلکہ مجھے چھوٹی بہن کی مثالیں دے کر اس جیسے ہونے کی نصیحت بھی کیا کرتے تھے ۔

ان تمام واقعات کے سبب مجھے اپنی سگی بہن سے شدید نفرت محسوس ہونے لگی اور میں اس کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں ہونے دیتی تھی ۔کبھی اس کے نۓ کپڑوں کو خراب کر دیتی کبھی اس کی کاپیاں چھپا دیتی تاکہ وہ اچھے نمبر نہ حاصل کر سکے

مگر وہ نہ جانے کس مٹی سے بنی ہوئی تھی کہ کبھی بھی میری شکایت کسی سے نہ کرتی اور ہمیشہ میری طرف سے دی ہوئی ہر تکلیف کو خود ہی پر جھیل لیتی تھی ۔ اسی وجہ سے میں نے اس کو میسنی کہنا شروع کر دیا تھا ۔

بچپن سے جاری یہ نفرت اب جوانی میں داخل ہو گئی تھی ہم دونوں نے کالج جانا شروع کر دیا تھا ۔ جہاں میں آرٹس اور وہ سائنس پڑھ رہی تھی ہمیشہ کی طرح کالج میں بھی وہی سب کی نظروں کا مرکز تھی ۔ میں کسی کو بھی یہ نہیں بتاتی تھی کہ وہ میری بہن ہے ۔

مگر وہ سب سے فخریہ طور پر مجھ سے ملواتی تھی جس پر مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ درحقیقت وہ میرا مزاق اڑانے کے لیۓ یہ سب کرتی ہے ۔ انہی دنوں میری دوستی ایک لڑکی سے ہوئی جو کہ بہت پیسے والے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔

اس کے انداز والدین کے وقت نہ دینے کے سبب بہت عجیب سے تھے ۔ وہ تمام باتیں جو ہمارے گھرانوں میں معیوب سمجھے جاتے تھے ان کے گھرانے میں فیشن کا حصہ تھے ۔ لڑکوں کے ساتھ میل جول رات رات بھر پارٹیاں سگریٹ نوشی وغیرہ ان لوگوں کی نظر میں کوئی بری بات نہ تھی

وقت کے ساتھ ساتھ اس کا رنگ مجھ پر بھی چڑھنے لگا اور میں نے بھی اسی کی طرح کئی لڑکوں سے دوستی کر لی جن سے اسی نے مجھے متعارف کروایا ۔ اپنی دوست کی گیدرنگ میں بیٹھ کر چند لمحوں کے لیۓ میری کم مائگی کا احساس بھی کم ہو جاتا ۔

کالج کے نام پر میں گھر سے نکلتی اور پھر کسی نہ کسی بہانے کالج سے جا کر ان لڑکوں کے ساتھ وقت گزارنا میری روٹین بنتی جا رہی تھی میری چھوٹی بہن نے مجھے کئی بار اس سے روکنے کی کوشش بھی کی مگر میں نے اس کو ڈانٹ کر چپ کروادیا کہ میں اپنا برا بھلا بہتر سمجھتی ہوں میری بڑی بننے کی کوشش نہ کرے ۔

میں نے اپنی دوست کے ساتھ مل کر ڈرگز لینی بھی شروع کر دی تھیں شروع شروع میں تو میری دوست نے مجھے یہ سب عیاشیاں اپنے خرچے پر کروائیں مگر جب میری ضروریات بڑھنے لگیں تو اس نے ہاتھ کھینچ لیا نشہ پورا کرنے کے لیۓ میں نے گھر ہی میں چھوٹی موٹی چوریاں شروع کر دی تھیں ۔

جب پیسے نہ ہوتے تو میرے دوست لڑکے مجھے ادھار بھی دے دیا کرتے تھے وقت کے ساتھ مجھ پر ان کا قرضہ بڑھتا جا رہا تھا اور ان کے رقم کی واپسی کے تقاضے بھی شروع ہو گۓ تھے مگر پے در پے چوریوں کے سبب میری ماں محتاط ہو گئی تھیں انہوں نے قیمتی اشیا تالے میں رکھنی شروع کر دی  تھیں جس کے سبب میری پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا ۔

ایک دن میں نے نشے کی تکمیل کے لیۓ اپنا موبائل فون بھی اس لڑکے کو دے دیا جو کہ مجھے نشہ مہیا کیا کرتا تھا اگلے دن جب نشے کی طلب ہوئی تو کالج جا کر اپنی دوست کے فون سے اس لڑکے کو فون کیا اور اس کے سامنے گڑگڑانا شروع کر دیا جواب میں اس نے مجھے چھ ماہ تک مفت نشہ فراہم کرنے کی پیش کش کی مگر اس کے جواب میں اس نے مجھ سے ایک مطالبہ کیا

اس کا کہنا تھا کہ اس نے میرے موبائل فون میں میری بہن کی تصویریں دیکھی ہیں اس کو میری بہن چاہیۓ اگر میں اپنی بہن اس کے حوالے کر دوں تو اس کے بدلے میں وہ مجھے مفت میں نشہ مہیا کرۓ گا میں نشے کی طلب میں اس حد تک پاگل ہو چکی تھی کہ میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ اگلے دن ہی میں اپنی بہن کو اس کے پاس لے آوں گی

اس نے میری دوست سے کہا کہ مجھے آج کے لیۓ نشہ دے دے اگلے دن میں نے اپنی بہن سے کہا کہ میری دوست کی سالگرہ ہے اور وہ اپنی سالگرہ کی ٹریٹ دینا چاہ رہی ہے وہ بھی میریے ساتھ چلے میری بہن میرے اس التفات پر بہت حیران ہوئی مگر میرے ساتھ چلنے پر تیار ہو گئی

اس لڑکے کے فلیٹ پر جب ہم گۓ تو میری بہن نے پوچھا کہ یہ کہاں آگۓ ہیں تو میں نے اس سے کہا کہ یہ میری دوست کا گھر ہے اور وہ لڑکا اس کا بھائی ہے اس کے بعد میں اور میری دوست تو اپنا نشہ پورا کرنے پر لگ گۓ اور وہ لڑکا میری بہن کو زبردستی گھسیٹتے ہوۓ اپنے کمرے میں لے گيا میری بہن بہت روئی چلائی مگر مجھ پر اس کی آہ فغاں کا کوئی اثر نہیں ہوا

کافی دیر بعد جب میری بہن کمرے سے باہر آئی تو اس کی حالت زندہ لاش کی سی تھی میں نے اس کی حالت اور لباس ٹھیک کیا اورٹیکسی کروا کر اس کو گھر لے آئی خوش قسمتی سے گھر میں امی نہ تھیں وہ کسی کام سے رشتے داروں کے گھر گئی ہوئی تھیں میری بہن نے اپنے کمرے میں جا کر دروازہ اندر سے بند کر دیا

میں اپنے کمرے میں جا کر سو گئی نشے کے سبب اور میری اپنی بہن کے ساتھ حسد اور جلن کے سبب مجھے اپنے کیۓ پر کوئی شرمندگی نہ تھی ۔ رات گۓ جب میں سو کر اٹھی تو میری بہن کا کمرہ اب بھی بند تھا جب امی واپس آئیں اور انہوں نے مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہہ دیا کہ مجھے نہیں پتہ کالج سے آکر وہ سو گئی تھی جب ابو کے آنے پر بھی وہ نہ جاگی تو امی نے اس کا دروازہ پیٹنا شروع کر دیا

جب ابو نے زبردستی دروازہ توڑا تو اندر میری بہن کی لاش موجود تھی اس نے خواب آور گولیاں کھا کر خودکشی کر لی تھی مگر اس بار بھی اس نے میری شکایت کسی سے بھی نہ لگائي تھی خاموشی سے اس دنیا سے منہ موڑ لیا ۔

لوگوں نے میری بہن کی  موت کے بارے میں بہت کچھ کہا مگر کسی کو بھی مجھ پر شک نہیں ہوا اس کی اس خاموش موت نے مجھے شرمندہ کر دیا اب میں دن رات اس کی یاد میں جلتی ہوں مگر اب اس محبت کا کیا فائدہ جب وہی نہ رہی

To Top