اجتماعی زيادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کے باپ کا معاشرے سے سوال

میں کبھی اس کے بے جان لاشے کو دیکھ رہا تھا اور کبھی ان پلوں کو یاد کر رہا تھا جب اس ننھی سی پری کو پہلی بار میں نے اپنی آغوش میں لیا تھا اس دن میں کتنا خوش تھا میرے گھر میں اس ننھی سی پری کی آمد نے رحمتوں کی بارش کر ڈالی تھی

وہ تھی ہی اتنی پیاری جو بھی دیکھتا اس کو اس پر بے ساختہ پیار آجاتا ۔ میرے گھر میں آنے والی اس رحمت پر میں اللہ کا جتنا شکر ادا کرتا کم تھا اس کو گود میں لے کر میں گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا یہاں تک کہ میری بیوی بھی اس سے جیلس ہونے لگی تھی

اس کا کہنا تھا کہ جب سے اللہ نے مجھے بیٹی دی ہے میں بدل گیا ہوں میرا دل چاہتا تھا کہ میں زمین آسمان کی ہر نعمت کو اس کے قدموں میں ڈھیر کر دوں مجھے بہت حیرت ہوتی تھی ان لوگوں پر جو بیٹی کو بوجھ سمجھتے ہیں

جب اس نے پہلی بار مجھے بابا کہہ کر پکارا تھا اس دن میں نے اپنے تمام ملنے والوں میں مٹھائی تقسیم کی تھی میں نے اس کا نام چاند رکھا تھا وہ چاند کی مانند ہی روشن تھی میری خواہش تھی کہ اس کی تعلیم و تربیت ایسی کروں کہ وہ آسمان کے چاند ہی کی مانند اس دنیا میں چمکے

وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے وہ تعلیم کی سیڑھیاں چڑھتی گئی اس کی ذہانت اور خوبصورتی سب کو اس کا گرویدہ کرتے جا رہے تھے اور میرا سر فخر سے بلند ہوتا جا رہا تھا جب دسویں جماعت میں اس نے بورڈ میں تیسری پوزیشن لی اس دن ٹی وی والوں کو انٹرویو دیتے ہوۓ میں بے ساختہ رو پڑا تھا کہ اللہ نے اگرچہ مجھے صرف ایک ہی اولاد سے نوازا ہے مگر کتنا خوش نصیب ہوں کہ میری بیٹی اتنی قابل ہے

شہر کے سب سے بڑ کالج میں اس کو داخلہ لے کر دینے کے لیۓ مجھے اپنی بائک بیچ دینی پڑی مگر مجھے اس کا رکھ نہ تھا کیوںکہ مجھے یقین تھا کہ میری یہ قربانی میری بیٹی کے آگے کچھ بھی نہیں میں دفتر جاتے ہوۓ اسے کالج چھوڑنے جاتا تھا واپسی پر وہ خود ہی آجاتی تھی

اس کے واپس آنے پر وہ فون کر کے مجھے بتا دیتی تھی کہ وہ گھر پہنچ گئی ہے مگر اس دن میں اس کی واپسی کا انتظار کرتا رہ گیا وہ گھر واپس نہیں آئی جب کافی دیر ہو گئی تو اس کی ماں نے مجھے فون کر کے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا میں دفتر سے چھٹی لے کر اس کے کالج چلا گیا کالج بھائیں بھائیں کر رہا تھا

چوکیدار نے بتایا کہ سب لڑکیاں جا چکی ہیں میں نے اس کی تمام سہیلیوں کو فون کیا مگر وہ کہیں بھی نہیں تھی میری بیٹی مجھے بتاۓ بغیر کبھی بھی کہیں نہیں گئی تھی میرے دل میں ہزار طرح کے وسوسے آرہے تھے جنہیں میں جھٹک رہا تھا

اپنے دوستو کے مشورے پر میں نے پولیس میں رپورٹ کروانے کا فیصلہ کیا جب پولیس والوں نے کہا کہ جوان بچی ہے اپنی مرضی سے کہیں چلی گئی ہو گی تو میں نے ان کو بتایا کہ میری بیٹی ایسی ویسی لڑکی نہیں ہے وہ میرا فخر ہے وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کر سکتی

پولیس والوں نے مجھ سے اس کی تصاویر لے لیں اور کہا کہ جیسے ہی انہیں پتہ چلے گا وہ مجھے بتادیں گے میں کالج سے گھر تک کے راستے پر پیدل کئی بار چکر لگا چکا تھا کہ اگر وہ کہیں ہو تو مجھے مل جاۓ میں نے شہر کے تمام ہسپتال بھی چھان لیۓ تھے مگر اس کا پتہ کہیں نہ لگا تھا

اس سارے معاملے کو دو دن گزر چکے تھے میری بھوک پیاس نیند سب اڑ چکی تھی اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی اور پولیس والوں نے مجھے تھانے بلایا میں بھاگتے ہوۓ وہاں پہنچا انہوں نے بتایا کہ ان کو ساحل سمندر کے ایک ہٹ سے ایک لڑکی بے ہوش حالت میں ملی ہے میں شناخت کر لوں کہ کہیں یہ میری ہی بیٹی تو نہیں ہے

میں جب ہسپتال پہنچا تو پتہ چلا کہ وہ لڑکی کومہ کی جالت میں ہے وہ میری چاند ہی تھی مگر اس کی حالت دیکھ کر میرا دل چاہا کہ اس کو اس حالت میں دیکھنے سے قبل مجھے موت کیوں نہیں آگئی ۔اس کے چہرے اور جسم کی اجڑی حالت دیکھ کر پتہ چل رہا تھا کہ اس کو کئی درندوں نے اپنی حیوانیت کا نشانہ بنایا تھا

پولیس ذرائع کے مطابق اس ہٹ سے میری بیٹی کے علاوہ شراب کی بوتلیں اور دوسری کئی منشیات بھی ملی ہیں جب میں نے ان کے نام جاننے کی کوشش کی تو پولیس کا کہنا تھا کہ جب تک میری بیٹی ہوش میں نہیں آتی تب تک وہ کسی کے خلاف پرچہ نہیں کاٹ سکتے

ایک ہفتے تک میں دن رات اپنی بیٹی کے سرہانے بیٹھا رہا کہ وہ آنکھیں کھولے اس دن جب اس نے آنکھیں کھولیں تو پہلے تو وہ یہ جاننے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ کہاں ہے اور کیوں ہے جب میں نے اس کا ہاتھ تھام کر اس کو بتایا کہ وہ ہسپتال میں ہے تو یک دم اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے واپس کھینچ لیا

چہرا دوسری جانب کیۓ اس نے رونا شروع کر دیا رفتہ رفتہ اس کی آواز بلند ہوتی گئی اور اس کی چیخیں اس کمرے سے باہر تک سنائی دینے لگیں میں نے فوری طور پر ڈاکٹر کو بلایا میرے ساتھ اس کی ماں بھی ڈر گئی تھی ڈاکٹر نے آتے ہی اس کو نیند کا ٹیکہ لگا دیا تھا

میڈیکل معائنے کے مطابق میری بیٹی کو نہ صرف اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا بلکہ دو دن تک اس کے ساتھ یہ بدترین عمل کئی لوگوں نے بار بار دہرایا تھا جس کے سبب اس کے جسم کے اندرونی اعضا سے مستقل خون جاری تھا

کئی بوتلیں خون چڑھانے کے باوجود وہ جانبر نہ ہو سکی اور بلاآخر ڈاکٹروں نے مجھے اس کی موت کی اطلاع دے دی بیٹی کے بے جان لاشے کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کا ہاتھ تھامے میں صرف یہی سوچ رہا تھا کہ میری بیٹی کا قصور کیا تھا

کیا اچھی شکل ہونا ہمارے معاشرے میں اتنی بڑی گالی ہے ؟کیا ہمارے اردگرد انسانوں کے روپ میں بھیڑیۓ موجود ہیں ؟ کیا جنسی ہوس اتنی بڑی چیز ہے جو کسی کو اتنی وحشت اتنی بربریت کی اجازت دے ڈالتی ہے ؟ کیا جن لوگوں نے یہ سب کیا ان کے گھر میں ان کی ماں بہنیں اور بیٹیاں عورت کے روپ میں نہیں ہوتی ہیں کیا ؟

میرے سوال اس معاشرے سے بھی ہیں میری بیٹی توم اب واپس نہیں آسکتی مگر ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ کر ہم باقی لوگوں کی بیٹیوں کو تو بچا سکتے ہیں

 

To Top