میں کیسے لکھوں کہ قندیل بلوچ مر گئی

یہ ڈرامہ سیریل باغی کی آخری قسط ہے ۔سب جانتے ہیں کہ آج مرکزی کردار موت کی آغوش میں چلا جائیگا ۔ سب جانتے ہیں کہ قہقہے بکھیرتی ہوئی , شوخ اور چنچل لڑکی ، زندگی کی تلخیوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہونے والی وہ قندیل جو اپنے خواب بیچ کر گھر کی تاریک دہلیز پر امید کی لو روشن کرتی رہی ، آج ہوا کے ایک بے رحم تھپیڑے کی تاب نہ لاتے ہوئے ہمیشہ کے لیے بجھ جائیگی ۔

سب حسب توفیق اسے گالیاں اور طعنے دینے کا پیدائشی حق استعمال کر چکے ہیں ۔ سب اپنے اپنے فیس بک ، ٹوئٹر اور انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اسے بارہا یقین دلا چکے ہیں  کہ ہمارا سماج جو مشرقی پاکیزہ اخلاقیات کے پرچار کا علمبردار ہے۔

 

کسی بھی  بد کردار ، بے حیا ، آوارہ منش ، نا فرمان ، نا ہنجار اور تہذیب و تمدن کی خلاف ورزی کرنے والی بد نصیب عورت کے وجود کو اپنے ” خوبصورت ” چہرے پر  “بد نما داغ ” سمجھتا ہے ۔۔بالکل ٹھیک ہی تو کہتے ہیں وہ پڑھے لکھے ، مہذب اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کے امین کہ ایسی عورتوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ۔۔

اے خدائے جن و انس ، مجھ سے  فوزیہ بتول کی آنکھوں کے گرد پڑے حلقوں ، گلہ دباتے ہوئے بھائی کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور آخری ہچکی لیتی آدم علیہ السلام کی بیٹی کے کرب کو لفظوں میں ڈھالنے کا حوصلہ چھین لے ۔ میرے ہاتھ شل کردے اور مجھے بینائی سے محروم کردے

To Top