کیا بیٹی کو بیٹے کی خوشیوں کی بھینٹ چڑھانا جائز ہے ؟؟

میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا ۔ میں نے اپنے کپڑے اور اپنی شادی کے لیۓ بناۓ گۓ زیورات ایک بیگ میں ڈالے اور چادر اوڑھ کر اس گھر پر آخری نگاہ ڈالی جہاں میں نے اپنا بچپن گزارا تھا ۔جہاں میں نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا تھا آج اسی گھر کو ایک بڑے طوفان سے بچانے کے لیۓ میں یہ گھر چھوڑ رہی تھی

گھر سے نکلی تو مجھے خود بھی پتہ نہ تھا کہ میں نے کہاں جانا ہے بس ایک دھن تھی کہ وہ نہیں کرنا جو یہ لوگ میرے ساتھ کرنا چاہ رہے ہیں اور اس کا یہی حل تھا کہ گھر چھوڑ دوں ۔ قصہ دراصل دو مہینے پہلے شروع ہوا میرا بھائی ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتا تھا وہیں اس کو کوئی لڑکی پسند آگئی جس سے اس نے شادی کی خواہش کا اظہار کیا اور امی ابو سے کہا کہ اس کا رشتہ لے کر جائيں


امی ابو اپنے کماؤ پوت کو کھونا نہیں چاہتے تھے اس لیۓ اس کا رشتہ لے جانے کو تیار ہو گۓ اس سے پہلے بتاتی چلوں کہ ہماری بہت ہی مختصر سی فیملی تھی ابو امی میرا بھائی اور میں ۔ بھائی نے انجنئرنگ کا ڈپلوما لے کر نوکری کر لی تھی اور ابو ریٹائر ہو گۓ تھے جب کہ میں ابھی بارہویں جماعت میں پڑھ رہی تھی

بھائی کا رشتہ لے کر جب ہم ان لوگوں کے گھر گۓ تو مجھے وہاں بہت ہی نامانوس سا احساس ہوا ۔ اس گھر کے مرد گھر میں بیٹھنے کے علاوہ کچھ نہ کرتے تھے جب کہ اس گھر کی عورتیں باہر جا کر کما کر لاتی تھیں جب کہ مرد طرح طرح کی عیاشیاں کرتے

ان کی گفتگو اور انداز مجھے اور امی ابو کو قطعی پسند نہیں آۓ ہم نے گھر آکر جب بھائی کو یہ سب بتایا تو اس کے سر پر تو عشق کا بھوت سوار تھا اس نے سختی سےکہا کہ اس نے وہیں شادی کرنی ہے اگر آپ لوگ کروا دیں گے تو ٹھیک ورنہ وہ خود ہی کر لے گا اور علیحدہ گھر لے کر رہنا شروع کر دے گا

بھائی کی اس بات نے امی ابو کو خوفزدہ کر دیا انہوں نے سوچا کہ اب بڑھاپے میں کہاں ٹھوکریں کھائيں گے اس لیۓ انہوں نے رشتے کے لیۓ آمادگی ظاہر کر دی اگلے ہی دن بھائی کے ہونے والے سسرال والے ہمارے گھر آۓ اور انہوں نے اپنے بیٹے کے لیۓ میرا رشتہ بھی مانگا

ان کا بیٹا نشے کی لت میں مبتلا تھا ان کا خیال تھا کہ اگر اس کی شادی کسی اچھی لڑکی سے ہو جاۓ گی تو وہ سدھر جاۓ گا اسی وجہ سے انہوں نے بھائی کے رشتے کی شرط یہی رکھی کہ اگر میرا رشتہ دیا گیا تب ہی وہ بھائی کو اپنی بیٹی دیں گے

بھائي یہ سنتے ہی جھٹ تیار ہو گیا مگر میں جانتے بوجھتے یہ مکھی کیسے نگل لیتی امی ابو نے بھی مجبورا بھائی کی خوشی کی خاطر مجھے قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس کے بعد دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئيں ۔ بھائی کی شادی اور میرا جنازہ ایک ہی دن اٹھنا تھا میں بہت روئی چلائی مگر کسی نے میری ایک نہ سنی

میرے سسرال والوں نے خود ہی یہ کہا تھا کہ شادی کے بعد لڑکی کو نوکری کرنی ہو گی کیوںکہ ہمارے بیٹے کو کمانے کی عادت نہں ہے ۔ جیسے جیسے شادی کا دن نزدیک آرہا تھا میری پریشانی بھی بڑھتی جا رہی تھا آخرکار میں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا میں جانتی تھی یہ آسان نہیں مگر میرے سامنے اس کے علاوہ کوئی حل نہ تھا

میرے رونے چلانے کا اس گھر کے کسی بھی فرد پر کوئی اثر نہ ہو رہا تھا میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی اس وجہ سے وہ زیورات جو ابو نے میری شادی کے لیۓ بناۓ تھے میں نے ساتھ رکھ لیۓ اور گھر سے نکل گئی میرا رخ بسوں کے اڈے کی طرف تھا ۔

جو بس تیار تھی میں اس کا ٹکٹ لے کر اس میں بیٹھ گئی ۔میں اس طرح کبھی بھی گھر چھوڑنا نہیں چاہتی تھی مگر میرے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہ تھا ۔ بس تھوڑا دور ہی چلی تھی کہ ایک جگہ ناکہ پر اس کو روک دیا گیا ۔تلاشی کے دوران جب پولیس والے نے مجھ سے پوچھا کہ میں اکیلے کیوں سفر کر رہی ہوں تو میں گھبرا گئی

اس نے مجھے بس سے نیچے اتروا لیا اور مجھے تھانے پہنچا دیا جہاں تھوڑی دیر کی تفتیش کے بعد ہی انہوں نے مجھ سے میرے ابو کا نام اور پتہ اگلوا لیا اور میرے گھر اطلاع کر دی ۔ کچھ دیر میں بھائی اور ابو تھانے آن پہنچۓ مجھے دیکھتے ہی بھائی نے میرے منہ پر ایک زور دار دھپڑ رسید کیا

بھائی کا کہنا تھا کہ کس کے ساتھ منہ کالا کیا ہے وہ بندہ کہاں ہے جس کے ساتھ میں بھاگی ۔مگر ایسا کوئي بندہ ہوتا تو میں بتاتی گھر لانے کے بعد بھی بھائی نے مجھے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تاکہ میں ان کو بتا دوں کہ میں کس یے ساتھ بھاگی ہوں مگر ایسا کوئي بندہ تھا ہی نہیں تو میں کس کا نام لیتی ۔

تھک ہار کے بھائی نے میرے کمرے کے باہر سے تالا ڈال دیا اور خود شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا ۔میں نے اب بھی یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ میں نکاح کے وقت ہاں ہی نہ کہوں گی ۔بھائی بھی میری ضد سےواقف تھا اس نے اس بار چالاکی کی اور صرف ابو اور بھائی میرے کمرے میں آۓ جہاں بھائی نے زبردستی میرا انگوٹھا نکاح نامے پر لگوا دیا

اس کے بعد جب میں رخصت ہو کر اپنے سسرال گئی تو وہاں مجھے جس کمرے میں پہنچایا گیا اس کو حجلہ عروسی کہنا اس کی توہین تھا اگرچہ اس کمرے میں وہ نیا سامان تو موجود تھا جو مجھے جہیز میں ملا تھا مگر اس کے علاوہ کسی قسم کی سجاوٹ نہ تھا

میں جانتی تھی کہ میرا نکاح نہیں ہوا اسی وجہ سے رات جب میرے نام نہاد شوہر کمرے میں آۓ تو میں نے ان کو سب بتایا کہ میرا ان کا نکاح نہیں ہوا اس لیۓ وہ مجھے نہ چھویں مگر وہ نشے میں اتنے ٹن تھے کہ ان پر اس بات کا کوئی اثر نہ ہوا

انہوں نے زبردستی میرے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کیا اور میری جانب کروٹ بدل کر سو گۓ ۔ میں رات بھر سسکتی رہی صبح اٹھ کر ان کو دوبارہ بتایا کہ میں ان کی بیوی نہیں وہ گناہ نہ کریں مگر ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی نظر میں میں ان کی بیوی ہوں ۔ اس لیۓ ان کا جو دل چاہے گا وہ کریں گے

شادی کےفورا بعد میری بھابھی کی جگہ پر میری نوکری لگا دی گئی اسی دوران میں نے ایک  بیٹی کو بھی جنم دیا جو کہ ایک حرام تعلق کا نتیجہ تھی ۔ میرا شوہر اب بھی صرف نشہ کرتا ہے یا مجھے مارتا پیٹتا ہے میں جب بھی امی ابو سے شکایت کرتی ہوں وہ مجھے کہتے ہیں کہ برداشت کروں ورنہ بھائی کا گھر برباد ہو جاۓ گا

بھائی کے گھر کی خوشیوں اور سکون کے لیۓ میں کب تک برباد ہوتی رہوں گی ؟ کیا میرا خوشیوں پر کوئی حق نہیں ہے ؟ کیا بیٹی ہونا میرا قصور ہے ؟؟

To Top