پڑھیں کسطرح اس ایک آسان عمل سے کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں

کیا آپ ایک سے زیادہ زندگیاں بچانا چاہتے ہیں ؟ یقینا آپ کا جواب ہاں میں ہو گا مگر اس کے لۓ آپ کو کیا کرنا ہو گا یہ جاننا آپ کے لۓ بہت ضروری ہے کام بہت آسان ہے مگر بدقسمتی سے ہم میں سے کوئی بھی کرنے کے لۓ تیار نہیں ہے۔

پا کستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ لوگ اپنے اعضاء کے ناکارہ ہونے کے سبب زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان میں زیادہ تعداد گردوں کے ناکارہ ہونے والے مریضوں کی ہے اور اس کے بعد بڑی تعداد جگر کے ناکارہ ہونے والے مریضوں کی ہے۔

ان دونوں اعضاء کی پیوند کاری کی سہولت ہمارے ملک میں موجود ہے مگر آج کی تاریخ تک صرف دو ہزار لوگوں نے ہی مرنے کے بعد اپنے اعضاء عطیہ کۓ ہیں جب کہ اس مرض میں مبتلا لوگوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔

02

 

اس حوالے سے کچھ لوگ مذہبی حوالوں کا سہارا لیتے ہیں کہ مرنے کے بعد مردے کو کاٹنا بھاڑنا شرعی طور پر ممنوع ہے مگر وہ لوگ اس حدیث کو بھول جاتے ہیں جس کے مطابق جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے انسانیت کو بچا لیا ۔ اسلام دین حق ہے اور اس نے سب سے ذیادہ زور ہی انسانیت کی بقا پر دیا ہے اس لۓ اس حوالے سے ہمارا عمل ایک صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھ سکتا ہے ۔

اس تکلیف کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس کے ساتھ یہ گزری ہوتی ہے ۔ انسان اپنے قریبی عزیزوں کو قطرہ قطرہ موت کے منہ میں جاتے دیکھ رہا ہوتا ہے مگر کچھ کر نہیں سکتا ۔ گردوں اور جگر کی پیوند کاری کے لۓ تو موت کی شرط بھی نہیں ہے انسان اپنی زندگی ہی میں اپنے یہ اعضاء عطیہ کرنے کے بعد بھی نارمل زندگی گزار سکتا ہے ۔

01

 

ایس آئی یو ٹی کے روح رواں ڈاکٹر ادیب رضوی کے مطابق لوگ پیسوں سے تو مدد کرنے کے لۓ تیار ہو جاتے ہیں مگر وہ اعضاء کے عطیے کے لۓ تیار نہیں ہوتے جس کے سبب اس بیماری میں مبتلا مریض مجبورا ڈائلیسس کے تکلیف دہ عمل سے گزرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو کہ انتہائی تکلیف دہ طریقہ علاج ہے ۔ہمارا ایک فیصلہ کئی زندگیوں کے لۓ راحت کا موجب بن سکتا ہے ۔

05

لوگوں کی اس اذیت کو دیکھتے ہوۓ چند شقی القلب لوگوں نے اس عمل کو بھی کاروبار بنا لیا ہے اور ضرورت مندوں سے ان کے اعضاء خرید کر اس طریقہ علاج کو بھی غریبوں کے لۓ دشوار بنا دیا ہے ۔ اس کاروبار کا رستہ روکنے کا واحد حل یہی ہے کہ انسانی جان کی بقا کے لۓ ہمیں خود آگے آنا پڑے گا اور اپنے اعضاء کا عطیہ کر کے اس نیک عمل کا حصہ بننا پڑے گا۔

اللہ تعالی نے ہر انسان کو دو گردوں سے نوازا ہے اسی طرح جگر کے اندر بھی ایسی بناوٹ موجود ہے کہ اگر اس کے اندر سے ایک ٹکڑا کاٹ بھی لیا جاۓ تو وہ کچھ عرصے میں دوبارہ نارمل حالات میں آکر اپنا فنکشن انجام دینا شروع کر دیتا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے انسانی جسم کے اندر فطری طور پر دوسروں کی مدد کا ایک وسیلہ پوشیدہ رکھا ہے ۔

 

To Top