لاہور میں کم عمر ملازمہ کو مالکان نے گھر سے قیمتی زیورات چوری کرنے کے شبہ میں قتل کرڈالا، لاش گٹر سے دریافت

گھریلو ملازمہ ہر گھر کا وہ اہم کردار ہوتا ہے جو کہ ان گھروں کے لیۓ لازم حیثیت اختیار کر لیتا ہے جن گھروں کو اس کی عادت ہو جاتی ہے گھریلو ملازمہ کے بغیر گھر کے کاموں کا تصور بھی ان کے لیۓ محال ہو جاتا ہے اسی سبب بہت سارے گھرانے کل وقتی ملازمین کو ترجیح دیتے ہیں

کل وقتی ملازم کے لیۓ عام طور پر گھرانے مختلف غریب گھرانوں کی کم عمر بچیوں کو ترجیح دیتی ہیں جو لوگون کے گھروں پر انتہائی قلیل مشاہرے پر کل وقتی ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں اور اس کے ذمے گھر کے عام کاموں کے علاوہ گھر والوں کی ڈانٹ پھٹکار لینا بھی نصیب ہوتی ہے اور اس کے بدلے میں ان کے نصیب میں بچا ہوا کھانا اور اترن کپڑے آتے ہیں ان کی تنخواہ ان کے والدین وصول کر لیتے ہیں اور ایسے ملازمین کے نصیب میں ہفتہ وار چھٹی نہیں ہوتی ہے

ایسی ہی ایک بچی عظمی بھی تھی جس کو اس کے والدین نے لاہور گلشن اقبال کے راوی بلاک کے ایک بنگلے والوں کے حوالے کیا تھا اور وہ وہاں کل وقتی ملازمہ کے طور پر کام کر رہی تھی اس بچی کی لاش اسی علاقے کے ایک گٹر سے جب بازیاب ہوئی تو اس کے والدین کو یہ پتہ چلا کہ جس بیٹی کو انہوں نے کام پر رکھوایا ہوا تھا وہ اب حیات نہیں ہے

[”adinserter block= “10”]

عظمی کے والدین کا یہ کہنا تھا کہ وہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اپنی بچی سے نہیں ملے اور مالکان کی جانب سے ان کو ملنے نہیں دیا جا رہا ہے جب کہ مالکان کا یہ کہنا تھا کہ گزشتہ تین دنوں سے یہ بچی گھر سے قیمتی زیورات چوری کر کے غائب ہو چکی تھی اور ان کو اس کے متعلق کچھ بھی پتہ نہیں ہے

فیس بک کے ایک ایکٹیوسٹ مہران سعید کے مطابق بچی ک جسم پر تشدد کے نشانات بھی موجود ہیں اور اس کے والدین کا یہ کہنا ہے کہ وہ ایک غریب آدمی ہے اور جب کہ اس کی بچی جس کے گھر میں ملازم تھی وہ ماہ رخ نامی ایک خاتون ہے جس نے چوری کا الزام لگا کر میری بچی کو تششد کر کے ہلاک کیا ہے مگر اب پولیس اس عورت کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی سے اجتناب برت رہی ہے

جب کہ انسانی حقوق کی کوئی تنظیم بھی اس کی مدد نہیں کر رہی ہے اپنی غربت کے سبب وہ وکیلوں کی فیس بھرنے سے قاصر ہے اس لیۓ اس کی تمام انسانی حقوق کی تنظیموں اور سوشل میڈیا صارفین سے یہ درخواست ہے کہ اس کی بچی کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جاۓ تاکہ اس کی بچی کے قاتل کیفر کردار تک پہنچ سکیں

[”adinserter block= “15”]

گھریلو ملازمین کے ساتھ بدسلوکی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس ملک میں جہاں بچوں سے محنت مزدوری کروانے کے خلاف قانون بھی موجود ہے وہاں پر معصوم بچوں سے لیا جانے والا یہ بیگار اور ان کے ساتھ کیا جانے والا جسمانی تشدد ایک سوالیہ نشان ہے

To Top