کیا عمران حان پاکستان کو ایک روشن مستقبل دے پائے گا؟

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

رات کا آسمان ستاروں کی روشنی سے منور ہوتا ھے۔ جب ہم آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کے دیکھتے ہیں تولگ بھگ تین ہزار ستاروں کو دیکھتے ہیں۔ جبکہ اربوں کی تعداد میں ستارے آسمان پہ ڈیرہ ڈالے ہوتے ہیں۔ یہ رات کے مسافروں کو بھٹکنے نہیں دیتے کہ مسافر ستاروں کو دیکھ کے سمت کا تعین کرتا ھے۔ ساری رات ان چمکنے والے ستاروں کی شاید اتنی اہمیت نہ ہو جتنی صبح کے ستارے کی ہوتی ھے۔اس کی زندگی جتنی مختصر ہوتی ہے اس کا مقصد اتنا ہی عظیم ہے. وہ رات کے اندھیرے میں روشنی کا سفیر بن کے آتا ہے, رات کے اندھیرے میں بھٹکے ہوئے لوگوں کو روشنی کا پیغام دیتا ہے.

صبح کا  ستارہ سیاہ رات کی تاریکی کو اپنے اوپر لپیٹ کر دنیا کو روشنی کی نوید دیتا ھے کہ روشنی کے پیام بر کا کام ہی رات کی تاریکی میں ڈوبے انسان کو طلوعِ سحر کی خوشخبری دینا ہوتا ھے۔ وہ مسافر جو ساری رات صبح ہونے کے انتظار میں بےچینی سے گزار رھا ہوتا ھے اس ستارے کے طلوع ہوتے ہی اس کے تھکے ماندے، پریشان حال چہرے پہ امیدِ صبح کی پو پھوٹنے لگتی ھے۔ وہ رات کی تاریکی اور انتظار کی تھکاوٹ کو بھول کر صبح کو خوش آمدید کہتا ھے کہ اندھیرا اب ختم ہونے کو ھے۔ یہ ستارہ اگر ایک دن بھی نہ نکلے تو نظام درہم برہم ہو جائے۔

پاکستانی قوم بھی اس وقت سیاہ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھٹک رہی ھے۔ ناامیدی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ھے کہ جس کو مسیحا سمجھا وہی دردِ لادوا دے گیا۔ پچھلے ستر سالوں سے اس قوم کے ساتھ مزاق کیا جا رھا ھے۔ خوبصورت نعروں سے جزبات ابھار کر رہنما اپنے مقاصد حاصل کرتے رھے۔

اس قوم کو بےروزگاری اور جہالت کے سمندر میں غرق کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔کہیں صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا تو کہیں انصاف کو غریب کی پہنچ سے دور کر دیا گیا۔ کسی کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل۔کر دی تو کسی کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔ قوم کے ساتھ بھونڈا مزاق کرتے رھے۔

قوم کو کرپشن، بےروزگاری، اقرباء پروری، ناخواندگی، طبی سہولتوں کے فقدان، پینے کے لیے گندا پانی، بھوک و افلاس کے اندھیروں میں پھینکا گیا تو ساری قوم مایوسی کے اندھیروں میں غرق ہو گئی، تاویل رات کے سیاہ اندھیروں نے ڈیرے ڈال دیے۔ رات ختم ہونے کا نام بھی نہیں لے رہی تھی قوم بھی اندھیروں کی عادی ہو گئی کہ اچانک آسمان کی بلندی پر صبح کا ستارہ طلوع ہوا۔ وہ ستارہ جو صبح کی نوید لیکر آتاھے وہ ستارہ جو رات کی تاریکی میں بھٹکے ہوئے مسافروں کو روشنی کا پیغام دیتا ھے۔ وہ صبح کا ستارہ عمران خان کی صورت میں طلوع ہوا اور ناامیدی میں بھٹکی قوم کو امید کی کرن دیکھائی۔

بے تحاشہ مہنگائی‘ لوڈ شیڈنگ‘ روز مرہ کے خون خرابے‘ لا قانونیت اور عدم تحفظ نے عوام الناس کو اذیت ناک ڈپریشن میں مبتلا کر دیا ہے‘ مسلسل خوف اور مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں جب قوم ہر طرف سے نا امیدی میں مبتلا کسی نجات دہندہ کی متلاشی تھی تو ایسے میں قدرت نے بے نوا ملک و قوم کی ڈوبتی ناﺅ کو سہارا دینے کا فریضہ عمران خان کو سونپ دیا‘ جو قوم کو مایوسیوں سے نکال کر روشنی کی طرف گامزن کرنے کے جذبے سے سرشار ہے‘

بائیس سال کی مسافت طے کر کے طلوع ہونے والے اس ستارے نے بھٹکی ہوئی قوم کو راہ دیکھائی۔ ان کو شعور دیا کہ اگر حق مانگنے سے نہ ملے تو اسے چھین لو۔ ظلم کے آگے ڈٹ جاؤ کہ ظالم ہمیشہ بزدل ہوتا ھے۔ قوم کو مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکالا اور انہیں نئے پاکستان کی منزل دی ایسا پاکستان جہاں امیر غریب کا فرق نہ ہو۔ ایسا پاکستان جس میں تعلیم یکساں اور طبی سہولیات سب کو میسر ہوں۔ جہاں فوری اور سستا انصاف ہو۔ جہاں روزگار کے لیے دھکے نہ کھانے پڑیں۔جہاں رشوت، اقرباءپروری اور کرپشن جیسے ناسور نہ ہوں۔

عمران خان ایک وڏنری لیڈر ھے وہ جب تقریر کر رھے ہوتے ہیں تو وہ کسی روایتی سیاستدان کی طرح نہیں ہوتی بلکہ ایک پروفیسر، ایک دانشور اور ایک حوصلہ دینے والے لیڈر ہوتا ھے کہ عقاب کا اندازِ پرواز فضا میں اڑنے والے دوسرے پرندوں سے مختلف ہوتا ھے۔ انہوں نے ہی سکھایا کہ انسان ھارتا تب ھے جب وہ ھار مان لیتا ھے۔ اس قوم کو خواب دیکھنا بھی اسی نے سکھایا کہ تاریک رات کے مسافر کو روشنی کی تلاش رہتی ھے۔

عمران خان استعارہ ھے تبدیلی کا۔ ۔ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے وہ عوام کا حوصلہ بڑھا رہا ہے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے وہ لوگوں کو اکسا رہا ہے جو بات زبانوں پر لوگ لانے سے ڈرتے تھے آج اسی کی بدولت وہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں کپتان سے لاکھ اختلاف کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں ۔وہ جو کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے،طریقہ کار سے اختلاف مگر ہو سکتا ہے۔کہتا ہے ان سب کی جائیدادیں بیرون ملک ہیں یہ لوگ دہری شہریت رکھتے ہیں،کہتا ہے وزارت عظمی کا خواہش مند ہوتا تو پینٹا گون کے طواف کرتا اس کے سچا ہونے کے دلیل اس سے بڑھ کر کیا ہے کہ کڑوا سچ وہ بڑی دلیری سے کہہ جاتا ہے ۔

ایک شاندار ہسپتا ل اور یونیورسٹی کی صورت میں اس کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس کی جدوجہد پر نظر ڈالتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ کتنے برسوں سے وہ ان کٹھن راہداریوں میں روشنی کی تلاش کر رہا ہے لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا مگرکوشش ابھی بھی اس کی جاری ہے۔۔ابھی بہت سی مشکلات ہیں اگر یہی خلوص اورپختہ ارادہ اس کے ساتھی رہے تو وہ وقت دور نہیں جب وہ اپنی منزل پالے گا۔۔۔کسی نے کہا ہارن آہستہ بجائیں یہ قوم سو رہی ہے،مگر کپتان کی ہمت کو داد جو مسلسل اس قوم کو جگانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔سچ پوچھیں تو کہیں دور سے ایک صدا سنائی دیتی ہے عمران خان نے ناممکن کو ممکن کردیا. عمران خان –

To Top