پنجاب یونی ورسٹی لاہور کے اندر ماضی قریب و بعید میں اکثر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جس کے سبب وہ خبروں کی زینت رہتی ہے ۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی یہ یونی ورسٹی ملک بھر کے نوجوانوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ہر زبان بولنے والے ہر مسلک و عقیدے کے اور ہر سیاسی جماعت کی نمائندگی کرنے والے نوجوان علم کے حصول کے لیۓ آتے ہیں ۔
پڑھے لکھے لوگوں میں سوچ کا ٹکراؤ ہونا ایک ثانوی بات ہے مگر اس ٹکراؤ کی بنیاد پر خوں ریزی کرنا وہ بھی مادر علمی میں ،ایک حوصلہ افزا طرز عمل نہیں ہے ۔گزشتہ دن بھی خبروں کے مطابق دو سیاسی تنظیموں کے درمیان ایسا ہی ٹکراؤ دیکھنے میں آیا جس کے نتیجے میں نو افراد شدید زخمی ہوۓ اور یونی ورسٹی میں سخت کشیدگی کی فضا قائم ہو گئی جس سے تدریسی عمل بھی متا ثر ہوا ۔
باتوں سے قطع نظر کہ پنجاب یونی ورسٹی میں اس سارے واقعہ کا ذمہ دار کون تھا اور اس کی وجوہات کیا تھیں اس حوالے سے نیوز اینکر ارضا خان نے دو ویڈیوز سوشل میڈیا پر شئیر کی ہیں جو اس معاملے کی نزاکت اور طالب علموں کے نقطہ نظر کو واضح کر رہی ہے ۔
ارضا خان کے مطابق ایک سیاسی جماعت کے افراد نے سوشیالوجی کے شعبے کے ایک طالب علم کو پرچے کے دوران اٹھا کر زود کوب کیا جس کے نتیجے میں اس طالب علم کا سر پانچ جگہ سے پھٹ گیا اور اس کے بعد اس سار ے واقعے کا ذمہ دار دوسرے گروہ کو قرار دیا ۔
اس موقع پر حکومتی افراد کی غیر سنجیدگی پر بھی تنقید کرتے ہوۓ ارضا خان کا کہنا تھا کہ حکومت اس مسلے کو حل کرنے کے اقدامات کرنے کے بجاۓ یونی ورسٹی انتظامیہ سے امید لگاۓ بیٹھی ہے کہ وہ اس معاملے کے ذمہ داروں کو سزا دۓ گی ۔
جب کہ اگرپنجاب یونی ورسٹی انتظامیہ نے کچھ کرنا ہوتا تو حالات اس نہج تک کبھی بھی نہ پہنچتے ۔اپنی ویڈیو کے ساتھ ہی ارضا خان نے ایک اور ویڈیو بھی شئیر کی ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ طالب علم ایک طالب علم کو ڈنڈوں سے مار رہے ہیں ۔اس ویڈیو کو دیکھ کر باچا خان یونی ورسٹی کی ویڈیو کی یاد تازہ ہو گئی ۔
ہم ایک مشال خان تو کھو چکے ہیں مگر کسی اور مادر علمی میں اس قسم کے کسی مذید ایسے واقعے کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لیۓ ضرورت اس امر کی ہے کہ یونی ورسٹی میں اس قسم کے پر تشدد واقعات کا خاتمہ کیا جاۓ اور قانون نافذ کرنے والے عناصر اس بات کو یقینی بنائیں کہ یونی ورسٹیز میں سے ایسے تشدد پسندانہ رویۓ دکھنے والے افراد کا خاتمہ کیا جاۓ ۔
