ناجائز تعلق کے سبب ہونے والے جھگڑے کا خمیازہ پانچ سالہ بچے کو بھگتنا پڑا

اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں اچھے اور برے کی شناخت پوشیدہ رکھی ہوتی ہے اور اسی کا نام ضمیر ہوتا ہے جو اگر جاگ رہا ہو تو انسان برائی کے قریب جانے سے پہلے سو بار سوچتا ہے اور اگر یہی ضمیر سو جاۓ یا مردہ ہو جاۓ تو پھر انسان اچھے برے ،صحیح یا غلط کی شناخت فراموش کر بیٹھتا ہے ۔

ملک میں بڑھتے ہوۓ جرائم کا ایک سبب یہ مردہ ضمیری بھی ہے جس کی وجہ سے انسان غیر فطری تعلقات نہ صرف قائم کر لیتا ہے بلکہ ان تعلقات کے سبب جرم کی ایسی راہ پر چل پڑتا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔

ایسا ہی ایک واقعہ کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں پیش آیا جہاں پر پہلے تو ایک مردہ ضمیر انسان نے اپنے دوست کی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کیے ۔ان تعلقات کے نتیجے میں اس کی بیوی کے ساتھ ملنا ملانا رکھا ۔اس کے ساتھ اس پڑوسی اور دوست کی غیر موجودگی میں نہ صرف اس کی بیوی کے ساتھ ملتا رہا

بلکہ اس کے ساتھ گھر سے باہر جا کر رنگ رلیاں بھی مناتا رہا مگر جب اس عورت کے ساتھ جھگڑا ہوا اور اس عورت نے اس کی ماں کو گالی دی تو اس انسان سے اپنی ماں کے لیۓ گالی برداشت نہ ہوئی ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اپنی ماں کے لیۓ تو گالی برداشت نہ ہوئی مگر کسی اور کی ماں کے کردار کو غیر فطری تعلقات قائم کر کے خود ہی ایک گالی بنا دیا ۔

غصے اور منفی جزبات کا شکار اس انسان نے اس گالی کے بعد اس عورت سے سارے پچھلے تعلقات فراموش کر دیۓ اور اس کی ممتا کو وہ چوٹ پہنچانے کا فیصلہ کیا جو کہ ایک ذی ہوش انسان خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا ۔اس نے اس عورت کے معصوم پانچ سالہ لعل کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ جانے پر مجبور کیا ۔

اس کے بعد اس بچے کو گود میں اٹھا کر گہرے سمندر میں پھینک دیا تاکہ اس عورت کی ممتا کو چوٹ پہنچائی جا سکے جس سے نام نہاد محبت کا وہ دعوی کرتا تھا ۔ اس انسان کے چہرے پر اس کے کیۓ گۓ اس جرم کے لیۓ کوئی شرمندگی موجود نہ تھی ۔ ایک عورت کی مامتا کو زک پہنچا کر اس نے اپنی ماں کی ما متا کا حق ادا کر دیا۔

معاشرے کے اندر بڑھتے ہوۓ ناجائز جنسی تعلقات اور ان کے نتیجے میں انسانی جان کو ختم کرنا ایک عام سی بات ہوتی جا رہی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیۓ ایسے موذیوں کو قرار واقعی سزا دی جاۓ تاکہ ان کی مثال کو سامنے رکھتے ہوۓ دوبارہ کوئی انسان ایسے جرم کا سوچ بھی نہ سکے

To Top