یورپ میں لاکھوں عورتوں کو چڑیل ہونے کا الزام لگا کر قتل کرنے کا ہولناک انکشاف

ہمارے معاشرے میں اگر چڑیل یا ڈائن کی تعریف پوچھی جاۓ تو لوگ اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ رات کے اندھیرے میں تنہائی میں ایک انتہائی سجی سنوری عورت اگر کہیں نظر آجاۓ  تو اس کے پیروں کی جانب دیکھنا چاہیۓ ۔وہ عموما الٹے ہوتے ہیں اور یہ عورت کوئی اور نہیں بلکہ ایک چڑیل یا ڈائن ہوتی ہے جس کا مقصد سامنے والے کو ہلاک کرنا ہوتا ہے ۔

اسلام کے اندر کہیں پر بھی چڑیل یا ایسی کسی عورت کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا ہے ۔البتہ ہندو معاشرے کے اندر کالی دیوی کو ماننے والی ایک عورت ڈاکنی تھی ۔اس ڈاکنی کے قبضے میں بہت ساری شیطانی طاقتیں تھیں ۔یہ عورت غذا کے طور پر انسانی گوشت و خون کا استعال کرتی تھیں ۔ اسی سبب ڈائن کا لفظ ایسی عورتوں کے لۓ استعمال کیا جاتا ہے جو اس کی پیروی کرتی ہیں ۔

مگر اس بارے میں سب سے زیادہ خطرناک تاریخ عیسائی مذہب میں ملتی ہے۔ جہاں سیکڑوں معصوم عورتوں کو چڑیل کے طور پر پادریوں کے حکم سے موت کی گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔قدیم یورپ میں ایک مذہب پایا جاتا تھا ۔جسے وچ کرافٹ کہا جاتا تھا ۔عیسائی مزہب میں اس مزہب کے ماننے والی عورتوں کو وچ کہا جاتا تھا ۔

جب عیسائیت یورپ میں حاوی ہوگئی تو یہ قانون بنایا گیا کہ جو عورت بھی اس مذہب یعنی وچ کرافٹ کی عبادت کرتی نظر آۓ اس کو موت کی گھاٹ اتار دیا جاۓ ۔ اس قانون کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس عورت کو پر بھی یہ الزام لگتا کہ وہ اس مذہب کی ماننے والی ہے اس کو بغیر کسی تحقیق کے موت کی گھاٹ اتار دیا جاتا تھا ۔

اس قانون کے سبب یورپ میں پندرہویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک لاکھوں عورتوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا۔اور یہ سب عیسائی پادریوں کے زیر نگرانی ہوتا ۔جو کہ عورتوں کو جلا کر ،ڈبو کر یا اعضا کاٹ کر ہلاک کرنے کا حکم جاری کرتے تھے ۔

پادری پورے گاؤں کے سامنے عدالت لگا کر اس عورت کو مار دینے کا حکم جاری کرتا تھا ۔ اور پھر پورا گاؤں اس عورت پر تھوکتے ہوۓ گاؤں کے مرکز میں لے جا کر صلیب پر ٹانگ کر اس عورت کو ہلاک کر دیا کرتا تھا ۔اس عمل کو وچ ٹرائل کہا جاتا تھا ۔اور یورپ میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوگۓ جو پیشہ ور طور پر ان چڑیلوں یا وچ کو تلاش کرتے تھے ان کو وچ ہنٹر یا چڑیل کا شکاری کہا جاتا تھا ۔

اس کے بدلے میں ان وچ ہنٹرز کو معاشرے میں عزت اور دولت دونوں سے نوازا چاتا تھا ۔اس بارے میں پادریوں کو یہ نظریہ تھا کہ ان عورتوں کو اتنی اذیت دو کہ وہ نہ صرف اپنے جرم کو قبول کر لیں بلکہ اگر اس دوران ان کی موت ہو جاۓ تو اس کا وبال ان پر نہیں بلکہ شیطان پر ہو گا ۔

جس عورت کو بھی وچ یا چڑیل تسلیم کر لیا جاتا تھا اس کی جائداد کلیسا  پادری اور اس کے بارے میں اطلاع دینے والے کے درمیان بانٹ دی جاتی تھی ۔شروع شروع میں اس ظلم کا شکار بوڑھی عورتوں کو کیا جاتا تھا مگر آہستہ آہستہ اس کا شکار وہ عورتیں بھی ہونے لگيں جو کہ جائداد کی مالک ہوتیں اور ان کی جائداد کو ہتھیانے کے لۓ ان کے بھائی ،شوہر یا دیگر رشتے دار ان کو اس طرح مروا کر ان کی جائداد پر قبضہ کر لیا کرتے تھے ۔

یورپ امریکہ اور برطانیہ میں ایک طویل عرصے تک یہ جرم جاری رہا مگر وقت کے ساتھ تعلیم اورشعور نے ظلم و زیادتی سے بھرپور اس عمل کا خاتمہ کر دیا ۔ اب یہ عمل یورپ کے اندر جاری نہیں مگر ڈھائی سو سال تک جاری رہنے والے اس عمل کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ عورتیں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔

To Top