نہم جماعت میں کم نمبر آنے پر اس طالب علم نے ایسا کیا کردیا کہ تمام والدین کو اپنے بچوں کی فکر لاحق ہو گئی

والدین کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو خود سے آگے دیکھیں اسی وجہ سے والدین اپنے اور اپنے بچوں کی زندگیوں کے کچھ گول متعین کرتے ہیں اور اس کے بعد پورا زور لگا کر ان کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس مقصد میں کچھ والدین کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور وہ دوسرے والدین کے لیۓ ایک مثال بن جاتے ہیں

اس کوشش اور خواہش کس حصول میں والدین اس بات کی طرف قطعی دھیان نہیں دیتے کہ ان کے بچے کی اپنی بھی کوئی شخصیت ہے اس کی بھی کچھ خواہشات ہیں اس کے برخلاف وہ پورا زور اس بات پر لگا دیتے ہیں کہ ان کا بچہ دوسرے بچوں سے امتیازی نمبر حاصل کرے تاکہ ان کا سر فخر سے بلند ہو سکے

ہمارے تعلیمی نظام کا ڈھانچہ جن اصولوں پر استوار ہے اس کے مطابق اسکولوں میں بچوں کی نفسیاتی استعداد جانچنے کے بجاۓ صرف اور صرف ان کی یاداشت کا امتحان لیا جاتا ہے جو بچہ جتنا اچھا رٹو طوطا ہوتا ہے اس کو زیادہ سے زیادہ نمبر دے کر اس کے اوپر ذہین کا لیبل لگا دیا جاتا ہے

اسی وجہ سے والدین اور بچے زیادہ سے زیادہ نمبر اور گریڈ حاصل کرنے کی  دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں جس کا براہ راست اثر بچوں کی نفسیاتی نشو نما پر ہوتا ہے ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ روز پشاور میں دیکھنے میں آیا جہان پرائیویٹ اسکول کا ایک طالب علم عامر جس نے نہم کے امتحانات میں پانچ سو پچاس نمبروں میں سے چار سو اٹھارہ نمبر حاصل کیۓ

بظاہر 76 فی صد نمبر کسی بھی طالب علم کے لیۓ ایک اچھا گریڈ سمجھا جاتا ہے مگر جب والدین اور بچوں کے ٹارگٹ بڑے ہوں تو ان کو یہ گریڈ بھی کم لگتے ہیں اسی حوالے سے عامر نے جب اپنے ٹیچر سے بات کی کہ اس کو لگا کہ اس کے یہ نمبر کم ہیں اور وہ اسکروٹنی کروانا چاہ رہا ہے جو اس کا قانونی حق بھی ہے

 

مگر اس کے استاد نے اس کی حوصلہ ا‌فزائی کے بجاۓ اس کو مذید خوفزدہ کر دیا کہ اگر اس نے اسکروٹنی کروائی تو ہو سکتا ہے کہ اس کے یہ نمبر بھی کم ہو جائیں والدین کا دباؤ اور استاد کے دلواۓ گۓ اس خوف نے اس بچے کے نازک ذہن پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیۓ اور یہ ذہین طالب علم عامر جو کہ اپنے اسکول کی سوشل میڈیا ٹیم کا صدر بھی تھا خود کو گولی مار کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو گیا

عامر کی موت صرف ایک خودکشی کا عام واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے تعلیمی نظام ،والدین اور اساتذہ کے لیۓ سوالیہ نشان بھی ہے جہاں بچوں کو زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے  کی مشین بنا کر ان کو نفسیاتی طور پر اس حد تک دباؤ کا شکار کر دیا جاتا ہے کہ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں

اس طالب علم عامر کی اپنے استاد کے ساتھ آخری چیٹ اور اس میں وہ تصویر جس میں وہ زندگی کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ جو سیدھے ہوتے ہیں زندگی ان ہی کو ٹھوک دیتی ہے اس بات کا واضح اظہار ہے کہ وہ اپنے نمبروں سے نہ صرف مطمئین نہ تھا بلکہ اس کو یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ اس کو اس کا حق نہیں دیا گیا ہے کیوں کہ وہ سیدھا تھا اسی بے اعتمادی نے اس کی جان لے لی ۔ جو کہ معاشرے کے لیۓ لمحہ فکریہ ہے

To Top