استاد کا ایسا عمل جو طالب علم کی جان لے بیٹھا استاد اس بارے میں کیا کہتا ہے ویڈیو دیکھیں

دنیا بھر کے تعلیمی نظام پر اگر نظر ڈالیں تو سواۓ پاک و ہند کے کہیں پر بھی بچوں کو جسمانی تشدد کے ذریعے تعلیم کی جانب راغب کرنے کی مثال نہیں ملتی ۔ ہمارے مدارس میں خصوصا جہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے استاد کے طالبعلم پر جسمانی تشدد کو آج کی اکیسویں صدی میں بھی لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے ۔

آج بھی ہمارے والدین بچے کا ہاتھ استاد کے ہاتھ میں دیتے ہوۓ صدیوں پرانا یہ جملہ بولنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ اس کا چمڑا آپ کا ہڈیاں ہماری ہیں ۔بھلے ماریں پیٹیں ہم آپ سے شکایت نہیں کریں گے ۔اسی سبب استاد یا معلم بچوں کے حق میں جابر جلاد کا روپ دھار لیتے ہیں اور مار پیٹ کے ذریعے ان کو علم بہم پہنچانا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔

https://www.facebook.com/waheed.murad.35574/videos/1513571755427447/

ایسا ہی ایک دل دہلا دینے والا واقعہ کراچی کے ایک مدرسے میں دیکھنے میں آیا جب نجم الدین نامی ایک استاد نے محمد حسین نامی ایک دس سالہ بچے کو اس حد تک تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس کا معصوم دل اس تشدد کی تاب نہ لا کر دھڑکنا ہی بھول گیا ۔ اس کی سانسیں تھم گئیں اور اس نے اس استاد کے سامنے ہی تڑپ تڑپ کر جان دے دی ۔

استاد کے مطابق محمد حسین اس کا ایک ذہین طالب علم تھا ۔ جو کہ دس پارے حفظ کر چکا تھا مگر گزشتہ کچھ دنوں سے پڑھائی کے بڑھتے ہوۓ دباؤ اور استاد کی سختی کے خوف سے اس نے مدرسے آنا چھوڑ دیا تھا ۔ جس کی خبر جب اس کے والدین کو ملی تو انہں نے پہلے تو بچے پر خود سختی کی ۔مارا پیٹا اس کے بعد اس کو استاد کے حوالے کر دیا ۔

استاد نے والدین کے اس قول کو کافی سمجھتے ہوۓ کہ ہڈیاں والدین کی اور چمڑا استاد کا ،اس بچے کے چمڑے کو لکڑی کے بید سے مار مار کر اتارنا شروع کر دیا ۔جس کے نشانات اس معصوم کے جسم پر واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔اس بری طرح پڑنے والی مار نے اس بچے کی جان لے لی ۔

اس سارے واقعے کا سب سے دردناک عنصر یہ ہے کہ والدین نے استاد کو حق بجانب سمجھتے ہوۓ اس پر کسی قسم کا مقدمہ قائم کرنے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ اس کو اپنے بچے کا خون بھی معاف کر دیا ۔ پاکستان میں مدارس کے استادوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی جنسی زیادتی کے واقعات پر اگر غور کیا جاۓ تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جب والدین استاد کو بچے سے جان سے مارنے پر حق بجانب سمجھتے ہیں تو وہ بچے کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعے پر کیسے آواز اٹھا سکتے ہیں ۔

اس قسم کے والدین اور ان کی ایسی سوچ کے سبب مدارس کے استاد خود کو بچوں کی جان اور ان کی عزتوں کا مالک سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس کے ساتھ جیسا دل چاہے سلوک کر گزرتے ہیں کیوں کہ ان کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ والدین کبھی بھی ہمارے خلاف کسی قسم کی آواز نہیں اٹھائیں گے ۔

 

To Top