یونی ورسٹی کی طالبہ کی ایسی کہانی جو تمام طالبات کو لازمی پڑھنی چاہیۓ

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

میرا داخلہ جب شہر کی مشہور اور مستند یونی ورسٹی میں ہوا تو میری خوشی کی انتہا نہ تھی ایک عام سے کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایک بڑی یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا صرف میرا ہی خواب نہ تھا بلکہ اس خواب کے لیۓ میرے والدین کب سے اپنا پیٹ کاٹ کر ایک ایک پیسہ بچا رہے تھے۔

مجھے اب اپنے والدین کو اپنے اچھے ریزلٹ کے ذریعے ان کے خوابوں کی تعبیر دینی تھی میں نے دل لگا کر پہلے ہی دن سے پڑھائی کا آغاز کر دیا ویسے تو سارے ٹیچر ہی بہت اچھے تھے مگر اکنامکس وہ مضمون تھا جس کا پڑھایا گیا سبق میرے سر پر سے گزر جاتا تھا  میں نے اپنے پروفیسر سے درخواست کی کہ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تو انہوں نے مجھے ٹائم دیا کہ میں ان کے آفس میں علیحدگی میں آکر سمجھ سکتی ہوں

میں ان کی اس بات پر بہت خوش ہوئی اور ایک دن کلاسز کے بعد ان کے آفس جا پہنچی جہاں پر وہ کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے میں نے ان سے کمرے میں آنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا کہ آتے ہوۓ دروازہ بند کر دوں تاکہ وہ سکون سے مجھے سمجھا سکیں ان کی یہ بات مجھے عجیب ضرور لگی مگر وہ میرے استاد تھے میں ان کے بارے میں ایسا ویسا کیسے سوچ سکتی تھی ۔


اس کے بعد وہ میرے برابر والی کرسی ہی پر آکر بیٹھ گۓ اور مجھے سمجھانا شروع کر دیا پڑھاتے پڑھاتے کئی دفعہ ان کا ہاتھ میرے ہاتھوں اور مجھے چھوتا رہا جس کو میں نے نظر انداز کر دیا ۔اس کے بعد انہوں نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا کہ اگر آئندہ بھی مجھے کچھ پوچھنا ہو تو اسی وقت میں ان کے پاس آسکتی ہوں

کہتے ہیں کہ مرد کے حوالے سے عورت کی چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے اسی سبب مجھے بھی ان کے اس طرح چھونے نے الجھن میں مبتلا کر دیا لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی ان کے کمرے میں اکیلے نہیں جاؤں گی البتہ ان کے حوالے سے کسی کو بھی کچھ نہ بتاؤں گی اگلے ہی دن میرے ان ٹیچر نے کلاس میں آتے ہی سرپرائز کوئز لے لیا جس میں میرے نمبر پانچ میں سے صرف ایک اۓ اور انہوں نے کم نمبر لینے والے چار پانچ اسٹوڈنٹس سے کہا کہ الگ الگ سے آکر ان سے سمجھ لیں جس میں میرا نام بھی شامل تھا ۔

مگر اس بار جب میں ان کے کمرے میں گئی تو اپنے ساتھ اپنی ایک دوست کو بھی لے گئی یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کو میں نے یہ نہیں بتایا کہ میں کس خوف کے  سبب اسے اپنے ساتھ لے جا رہی ہوں ۔ اس کو دیکھتے ہی سر ٹھٹک گۓ اور انہوں نے اس کو لائبریری سے کتاب لینے کے بہانے بھیج دیا اور ایک بار پھر کمرے میں صرف میں اور وہ اکیلے رہ گۓ ۔

اس بار انہوں نے میرے سامنے اپنی بیوی کا رونارونا  شروع کر دیا کہ وہ ان کے لیۓ کسی حوالے سے بھی موزوں نہیں ہے غیر تعلیم یافتہ ہے مگر وہ بچوں کی وجہ سے اس کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں اس بار بات کرتے کرتے وہ میری کرسی کے پیچھے آگۓ اور انہوں نے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ دیۓ میں ہڑبڑا کر کھڑی ہو گئی ۔میں نے کمرے سے نکلنے کی کوشش کی تو وہ میرا راستہ روک کر کھڑے ہو گۓ ۔

انہوں نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاتے ہوۓ کہا کہ مجھ سے دوستی کر لو میں نے کہا کہ سر آپ میرے استاد ہیں میں آپ کا بہت احترام کرتی ہوں مگر یہ ممکن نہیں ہے میں ایسی لڑکی نہیں ہوں یہ کہہ کر میں ان کو دھکیلتے ہوۓ باہر کی جانب بھاگی ۔ اس کے بعد سے میرے برے دن شروع ہو گۓ وہ کلاس میں آتے ہی بات بے بات میری بے عزتی کرنے لگے میں جتنا بھی اچھا اسائنمنٹ یا ٹیسٹ دیتی اس میں میرے نمبر ہمیشہ سب سے کم آتے

انہوں نے میرے واٹس ایپ نمبر پر بھی مختلف نمبروں سے میسج کر کے دوستی کا کہنے کا سلسلہ جاری رکھا میں ان کے کسی میسج کا کبھی بھی کوئی جواب نہ دیتی تھی میرے سیمسٹر سر پر تھے مگر مجھے لگ رہا تھا کہ وہ مجھے پاس نہیں کریں گے اور ایسا ہی ہوا ایک دن انہوں نے یہ بات میسج پر بھی کر دی کہ اگر میں پاس ہونا چاہتی ہوں تو مجھے ان سے اکیلے میں ملنا پڑے گا

میرے ماں باپ نے میری پڑھائی کے لیۓ بہت مشکل سے پیسے جمع کیۓ تھے مگر میرے پروفیسر بضد تھے کہ میرا پیپر اسی وقت کلئیر ہو گا جب کہ میں ان سے تنہائی میں ملوں ۔ میں اچھی طرح جانتی تھی کہ ان کے ساتھ تنہائی میں ملنے کا مطلب کیا ہے ۔ مگر میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ آخر بہت سوچ بچار کے میں نے فیصلہ کر لیا اور میں نے پروفیسر صاحب سے تنہائی میں ملنے کی آمادگی ظاہر کر دی ۔

اس دن میں نے ان سے پہلی بار میسج پر بات کی اور ان سے کہا کہ میں ان سے ملنے کے لیۓ تیار ہوں مگر مجھے پہلے وہ یقین دلائیں کے اس کے بعد وہ مجھے پاس کر دیں گے میں نے ان کے سارے میسجز اپنے پاس سیو کر لیۓ ۔ میں نے سوچا کہ اگر ایک بار ان سے ملی تو ایسا بار بار کرنا پڑے گا اسی وجہ سے میں نےایڈمن بلاک سے کسی طرح اس سر کے گھر کا پتہ معلوم کیا اور ایک دن جب وہ یونی ورسٹی میں کلاس لے رہے تھے میں ان کے گھر جا پہنچی

جب میں نے ان کے گھر کی گھنٹی بجائی تو مجھے امید تھی کہ کوئی جاہل اجڈ عورت دروازہ کھولے گی مگر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ دروازہ کھولنے والی ایک بہت ہی پیاری سی خاتون تھیں میں نے جب ان کو اپنے آنے کا مقصد بتایا تو شروع میں تو انہوں نے میری کسی بات پر یقین نہیں کیا مگر جب میں نے ان کو سارے میسجز پڑھاۓ تو وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں

اس کے بعد انہوں نے ہی مجھے مشورہ دیا کہ سر اکیلے میں جب اور جہاں بلائیں میں وہاں چلی جاؤں انہوں نے اپنا نمبر بھی دیا کہ میں ان کو جگہ اور ٹائم کے بارے میں بتا دوں تاکہ وہ اس وقت وہاں پہنچ سکیں ۔میں نے ایسا ہی کیا سر نے مجھے کسی فلیٹ کا ایڈریس دیا اور ساتھ ہی وقت بھی بتا دیا میں نے اس سب سے سر کی بیگم کو مطلع کر دیا میں نے سر کی بیوی سے کہا کہ ہم مقررہ وقت سے تھوڑا دیر سے ایک ساتھ  وہاں پہنچیں گے

جس وقت سر کی بیگم کے ساتھ میں اس فلیٹ میں داخل ہوئی تو سر اپنی بیوی کو میرے ساتھ دیکھ کر ایک دم بوکھلا گۓ اور انہوں نے ایک دم چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ یہ لڑکی مجھے بلیک میل کرنا چاہ رہی ہے مگر سر کی بیوی ایک اچھی خاتون ثابت ہوئیں انہوں نے اپنے شوہر سے لڑائی جھگڑا کرنے کے بجاۓ اپنے شوہر سے کہا کہ میں نے اس لڑکی کو اپنی بہن بنا لیا ہے اور اس کے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی کو وہ کبھی بھی برداشت نہیں کریں گی

میں نے تھوڑی سی کوشش سے نہ صرف اپنی عزت بچا لی بلکہ اپنا سال بھی بچا لیا میری کہانی ان تمام لڑکیوں کے لیۓ ایک سبق ہے جو اس قسم کے حالات کا شکار ہونے کے بعد حوصلہ ہار بیٹھتی ہیں

To Top