خواتین کا چہرہ جھلسانے والا تیزاب بازاروں میں عام دستیاب ۔ پس پردہ کون؟

معاشرے میں عورت اور مرد کا تعلق روز اول سے حضرت آدم کے وقت سے چلا آرہا ہے ۔ اس تعلق میں محبت،رقابت،جلن حسد سب کچھ شامل ہے ۔ اسی تعلق کے سبب نئی نسل وجود میں آتی ہے ۔جزبات سے پر یہ تعلق اس زمین پر ہونے والے پہلے قتل سے آج تک بہت سارے قتل کروا چکا ہے ۔

موجودہ دور میں اس تعلق کے بگاڑ کے نتیجے میں تیزاب گردی کی وارداتیں تیزی سے سامنے آرہی ہیں ۔ تیزاب گردی کے واقعات کے پیچھے مردوں کی یہ سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ عورت کا ست سے قیمتی اثاثہ اس کا خوبصورت چہرہ ہوتا ہے اس کو ہی برباد کر دو تاکہ وہ عورت کسی کے بھی فابل نہ رہے ۔

 

اس مقصد کے لیۓ تیزاب کا انتخاب کیا جاتا ہے جو بظاہر عام طور پر فروخت کرنا قانونی طور پر ممنوع ہے مگر اس کے باوجود تیزاب گردی کے بڑھتے ہوۓ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عورتوں کے چہروں کو چھلےانے والا یہ تیزاب بازاروں میں آسانی سے دستیاب ہے ۔

اس حوالے سے بازاروں میں گٹر کھولنے والے تیزاب اور مختلف ٹوائلٹ کلینر جو کہ درحقیقت تیزاب ہی ہوتے ہیں بازاروں میں کھلے عام بک رہے ہیں ۔ان کا شکار بننے والی خواتین معاشرے میں عبرت کا سامان بن جاتی ہیں

پاکستان میں 2004 سے 2017 تک تیزاب گردی کے 513واقعات ہوئے۔ سال 2010 میں 22، سال 2011 میں 49، سال 2013 میں 51 جبکہ سال 2014 میں 61 واقعات رونما ہوئے جبکہ ایسڈ سروائیور فاونڈیشن (ASF) کا کہنا ہے کہ سال 2014کے بعد پاکستان میں تیزاب گردی کے واقعات میں 50فیصد کمی واقع ہوئی۔ دنیا میں تیزاب گردی کے سب سے زیادہ واقعات بنگلہ دیش میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

اسی حوالے سے بین الاقوامی شہرت کی حامل فلمساز شرمین عبید چناۓ نے بھی ایک ایسی عورت پر فلم بنائی تھی جس کو تیزاب سے جلا دیا گیا تھا خواتین کا چہرہ جھلسانے والا تیزاب بازاروں میں عام دستیاب ۔ پس پردہ کون؟ اور اس پر ان کو آسکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا اس کے بعد پوری دنیا کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ پاکستان میں ہر مرد اپنی شلوار کے نیفے میں تیزاب کی بوتل اڑس کے چل رہا ہوتا ہے اور ہر عورت جھلسے ہوۓ چہرے کے ساتھ زندہ ہے ۔

مگر حکومت کی جانب سے سخت ترین قانون سازی اور بدترین سزاؤں کے سبب اگرچے ایسے واقعات کی شرح میں کمی ضرور آئی ہے مگر یہ سلسلہ ختم نہیں ہو سکا ہے ۔ اس حوالے سے سب سے اہم امر یہ ہے کہ اس چیز کو یقینی بنایا چاۓ کہ تیزاب کی خرید و فروخت قانونی طور پر ہو اور ہر دکان میں یہ آسانی سے دستیاب نہ ہو ۔

اس کو خریدنے والوں کا باقاعدہ حساب رکھا جاۓ اور تیزاب کی فروخت کا ایک باقاعدہ نظام بنایا جاۓ ۔تھوڑے سے پیسوں کے فائدے کے لیۓ یہ قاتل زہر سر عام بیچنے کا سلسلہ روکا جاۓ

To Top