پاکستان کی تاریخ کا انوکھا مقدمہ : بیٹی نے باپ کے نام کی جگہ پاکستان لکھنے کا مطالبہ کر دیا وجہ ایسی کہ سب ہی تائید پر مجبور ہو جائيں

عام طور پر شادی کے بعد میاں بیوی کو ایک اکائی تصور کیا جاتا ہے اور جب بچے ہو جاتے ہیں تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہو گیا ہے مگر بعض گھرانے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں میاں بیوی کو بچوں کی زنجیر بھی ایک دوسرے کے ساتھ باندھنے میں ناکام رہتی ہے

ایسا ہی ایک گھرانا تطہیر فاطمہ کا بھی ہے جس کے والدین کی 1996 میں علیحدگی ہو گئی تھی اس کے بعد سے یہ بچی اپنی زندگی اپنے باپ کے بغیر گزارتی آئی تھی اب جب اس کی عمر اٹھارہ سال ہوئی اور شناختی کارڈ بنانے کا وقت ایا تو اس بچی نے باپ کے نام کی جگہ پاکستان لکھنے کی درخواست کی

اس بچی کا یہ کہنا تھا کہ جس شخص کو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں جس نے باپ کی حیثیات سے کبھی کوئی ذمہ داری ادا نہیں کی میں پوری زندگی اس کے نام کے ساتھ کیوں گزاروں سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی وفد نے کی انہوں نے اس درخواست کے جواب میں اس بچی کے باپ شاہد علی کو بھی طلب کیا

تطہیر فاطمہ کے باپ کا اس موقعے پر یہ کہنا تھا کہ اس نے طلاق کے بعد تین سال تک اس بچی کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھائی مگر اس کے بعد اس نے اس بچی کو کبھی دیکھا تک نہیں پیشے کے اعتبار سے سی سی ٹی وی کیمرے فٹ کرنے والے اثاثوں کی جانچ پڑتال کا حکم چیف جسٹس نے جاری کر دیا ہے

اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس نے اس حوالے سے شریعت کورٹ کے جج کی مدد بھی طلب کر لی ہے چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ والد کا نام اولاد کے نام کے ساتھ لازمی طور پر جڑا ہوتا ہے اور اس کو ہٹایا نہیں جا سکتا ہے البتہ اس بات کو یقینی بنانے کے اقدامات کیۓ جا سکتے ہیں کہ ماں باپ کی علیحدگی کے منفی اثرات بچوں پر مرتب نہ ہوں

اس موقعے پر تطہیر فاطمہ اور اس کے والد کی جانب سے جزباتی مناظر بھی دیکھنے میں آۓ اس کے والد اس کیس کو اپنی بدترین ذلت محسوس کر رہے تھے جب کہ دوسری جانب تطہیر فاطمہ کو اپنے پورے بچپن کے زیان کا افسوس تھا بہرحال اس کیس کی سماعت چیف جسٹس نے دس روز کے لیۓ ملتوی کر دی ہے دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے اس انوکھے مقدمے کا کیا فیصلہ ہوتا ہے

To Top