پشاور : طالبہ پر ایسا کیا کرنے کا الزام تھا کہ پرنسپل نے اس کو برہنہ کر کے تلاشی لینے کا شرمناک عمل کر دیا

ماضي سے قطع نظر موجودہ دور میں طلبہ و طالبہ کو ایسے حقوق حاصل ہو گۓ ہیں جن کی بنیاد پر اب اساتذہ نہ تو بچوں پر جسمانی تشدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے اوپر کسی بھی قسم کا ذہنی دباؤ ڈال سکتے ہیں کیوں کہ اب آئین پاکستان کی رو سے بچوں کے اوپر ذہنی و جسمانی تشدد کرنا قابل تعزیر جرم ہے پشاور میں بھی میڈیا کی توسط سےایسا ہی ایک واقعہ سامنے آيا

تمام طالبات سے پوچھ گچھ

تفصیلات کے مطابق  پشاور کے سرکاری اسکول کی ایک طالبہ اس وقت ایک بڑی مشکل میں گرفتار ہو گئی جب اس کی جماعت کی ایک استانی کے پرس سے دو ہزار روپے کے گم ہونے کی اطلاع اسکول کی پرنسپل تک پہنچی اور اس نے اس جماعت کی تمام طالبات سے اس حوالے سے باز پرس کا فیصلہ کیا

دھم جماعت کی تمام طالبات کے بستوں کی تلاشی کے بعد بھی جب کسی کے پاس سےبھی مسروقہ رقم برآمد نہ ہوئی تو استانی نے اس موقع پر پرنسپل کے سامنے ایک طالبہ کے اوپر شک کا اظہار کیا

طالبہ پر جسمانی تشدد

جس پر پرنسپل نے پہلے تو اس طالبہ کو علیحدہ کمرے میں بلا کر اس سے سختی سے باز پرس کی اور اس دوران اس طالبہ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا مگر جب اس کے باوجود طالبہ سے پیسوں کے متعلق کچھ پتہ نہ چل سکا

تو پرنسپل نے اس طالبہ کو بے لباس ہونے کا حکم دے دیا اور اس کے کپڑے سب کے سامنے اتار ڈالے اس بات کی شکایت جب بچی نے گھر جا کر اپنے گھر والوں سے کی تو انہوں نے اس حوالے سے پرنسپل کی شکایت اعلی عہدیداروں سے کی جہاں سےبات میڈیا تک بھی پہنچ گئی

جب اس حوالے سے پرنسپل سے استفار کیا گیا تو اس نے طالبہ کو برہنہ کرنے کے الزام کی تردید کی اور اس بات کا اعتراف کیا کہ پیسوں کے گم ہونے پر اس طالبہ کی تلاشی ضرور لی ہے

یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہمارے اساتذہ کو معصوم بچوں کے ساتھ ایسا سلوک کر دینا بند کر دینا چاہیۓ اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیۓ کہ بچے بھی بڑوں کی طرح عزت نفس رکھتے ہیں

To Top