گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کا تعلیمی نظام انحطاط کا شکار ہے ۔امتحانی مراکز میں اور امتحانات کے دوران رشوت کے ذریعے نقل کرنے کی خبریں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔بلواسطہ یا بلاواسطہ ہر پاکستانی کسی نہ کسی طور پر اس سے متاثر ضرور ہو چکا ہے ۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والی ایسی کالی بھیڑوں کے خلاف ایسے اقدامات ماضی قریب میں بھی کۓ جاتے رہے ہیں جن میں میٹرک بورڈ اور انٹر بورڈ میں کی جانے والی کاروائیاں قابل ذکر ہیں مگر اس کے باوجود آج بھی تعلیمی نظام کی جڑوں میں رشوت اور نقل دیمک کی طرح موجود ہے ۔
جس کی تازہ ترین مثال ایم ڈی کیٹ کے ٹیسٹ میں کامیابی کے بعدانس نامی طالبعلم کی جانب سے کیا جانے والا ٹویٹ ہے جس میں اس نے دعوی کیا ہے کہ پانچ لاکھ کے عوض اس کے والد نے اس کے لۓ ٹیسٹ کے پیپر خریدے جس کی بدولت وہ گیارہ سو میں سے ایک ہزار ساٹھ نمبر لینے میں کامیاب ہو سکا ۔ اپنے اس ٹویٹ میں اس نے اپنے والد کا شکریہ بھی ادا کیا ۔
انس نامی طالبعلم کا یہ ٹویٹ اس کے لۓ مشکلات کھڑی کرنے کا سبب بن گیا ۔ اس کے اس ٹوئٹ کے بعد قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں نہ صرف حرکت میں آگئیں بلکہ انہوں نے اس طالبعلم کو گرفتار کر کے اس کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا ہے ۔
اس سارے واقعے کا سب سے بڑا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ طالبعلم اس سارے عمل کو انتہائی فخریہ طور پر بیان کر رہا ہے اور اس میں اسے اس کے والد کا تعاون بھی حاصل ہے ۔
یہ امر باعث اطمینان بھی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قسم کی کرپشن کی روک تھام کے لۓ مصروف عمل ہیں ۔ان کی یہ کوششیں کم ازکم تعلیمی شعبے جیسے مقدس پیشے کو کرپشن سے بچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔