گيارہ سالہ طالبعلم نے انصاف نہ ملنے پر اپنے باپ کا بدلہ کیسے لیا؟

انصاف میں تاخیر درحقیقت انصاف کی موت ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا عدالتی نظام اس حقیقت سے ناواقف نظر آتا ہے ۔ عدالتی نظام کی باریکیوں سے قطع نظر اس کے مقدمات کی طوالت مظلوم کے لۓ جتنی صبر آزما ہوتی ہے اتنی ہی ظالم کے لۓ باعث راحت ۔ ایسا ہی کچھ اس معصوم بچے گوہر کے ساتھ بھی ہوا ۔

ڈیڑھ سال قبل اس کے والد کو حافظ غیاث نامی شخص نے رقم کے تنازعے میں قتل کر دیا تھا جبکہ پولیس ذرائع کے مطابق حافظ غیاث پر ناجائز اسلحہ رکھنے کا کیس چل رہا تھا یعنی اس کے اوپر چلنے والا کیس گوہر کے والد کے قتل کا نہیں بلکہ صرف اور صرف ناجائز اسلحے کا تھا اور پاکستانی قوانین کے مطابق اس کی انتہائی سزا تین سال سے سات سال تک کی قید ہی ہو سکتی تھی ۔

ان تمام حالات کو دیکھتے ہوۓ مایوس گوہر نے کوئی چارہ نہ پا کر مجبورا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ۔ڈیڑھ سال سے جاری پیشیوں میں سے ایک پیشی میں جب حافظ غیاث اور اس کا ساتھی ارشد عدالت آۓ تو گوہر نے  ان پر فائرنگ کر دی جس سے حافظ غیاث دم توڑ گیا

یہ واقعہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ہم سب کے لۓ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ سب سے پہلا سوال تو ہمارے عدالتی نظام پر اٹھ رہا ہے جس پر سے عوام کا اعتماد اس کی تاخیر کے باعث اٹھتا جارہا ہے ۔ اس کے بعد دوسرا اہم نقطہ جو قابل غور ہے وہ ایک معصوم بچے کا اس  درجےتشدد کی جانب راغب ہونا ہے کہ وہ کسی کے قتل کا باعث بن جاۓ ۔

اس کے علاوہ ایک اور اہم نقطہ ہماری عدالتوں کی سیکیورٹی کی بدترین صورتحال پر بھی ہے جس کے تحت ایک کم عمر بچہ بھی اپنے ہمراہ عدالت کے احاطے میں نہ صرف پستول لے کر داخل ہو سکتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کا استعمال کر کے کسی کی جان بھی لے لیتا ہے اور ہمارے سیکیورٹی ادارے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ۔

To Top