طلاق تو مرد اور عورت دونوں کی ہوتی ہے ، مگر اس کا داغ عورت کے ماتھے پر ہی کیوں سجتا ہے ؟

میں اپنے شوہر کے قدموں میں گر کر اپنی ساری عزت نفس کو ایک جانب رکھے صرف ایک ہی درخواست کر رہی تھی کہ مجھے طلاق مت دو میں ساری زندگی تم سے اپنے اور اپنی بیٹی کے لیۓ ایک پائی بھی نہیں مانگوں گی بس مجھ سے اپنا نام واپس نہ لو ۔میں اس گھر میں ایک کونے میں پڑی رہوں گی سارے گھر کے کام بھی کر دوں گی مگر بس مجھے اس گھر میں رہنے دو تم نے دوسری شادی کرنی ہے تم کر لو میں تم دونوں کے درمیان کبھی نہیں آؤں گی مگر مجھے طلاق نہ دو میں کس کس کو یہ بتاتی پھروں گی کہ اس طلاق میں میرا کوئي قصور نہ تھا

میں ایک پڑھی لکھی عورت ہوں ۔میری شادی میرے والدین نے اپنی مرضی سے کی جس کو میں نے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا تھا مگر شادی کی پہلی رات ہی میرا گھونگھٹ اٹھا کر میرے شوہر نے مجھے یہ کہہ دیا کہ میں ان کی پسند نہیں ہوں مگر وہ مجھ سے شادی کے لیۓ صرف اس لیۓ تیار ہوۓ کہ وہ جس سے شادی کرنا چاہتے تھے اس لڑکی کی شادی کہیں اور ہو گئی لہذا اس کو دکھانے کے لیۓ انہوں نے مجھ سے شادی کر لی ۔


میں نے ان کی بات سن کر اس بات کا فیصلہ کیا کہ ہر فرد کا کوئی نہ کوئی ماضی ہوتا ہے مگر یہ شخص میرا حال اور میرا مستقبل ہے اس لیۓ میں نے اپنے حال کے ذریعے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئي ۔ جس پل مجھے اس بات کی خوشخبری ملی کہ میں ماں بننے والی ہوں اس دن میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی میں نے ہمیشہ یہی سنا تھا کہ اولاد میاں بیوی کے رشتے کو اور مضبوط بنا دیتی ہے۔ میرے شوہر بھی اب میرا خیال رکھنے لگے تھے

جیسے جیسے میری ڈلیوری کے دن نزدیک آتے جا رہے تھے میری طبیعت کافی خراب رہنے لگی تھی ۔انہی دنوں میں نے محسوس کیا کہ میرے شوہر بات بے بات چڑچڑے ہو جاتے تھے غصہ گالم گلوچ ان کی روز مرہ کی روٹین بنتی جا رہی تھی مجھے لگا کہ میری طبیعت کو لے کر شائد ان کے مزاج میں یہ تبدیلی واقع ہو رہی ہے اسی سبب میں نے ان کو اپنی تکلیف کے بارے میں بتانا ہی چھوڑ دیا تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو ۔

اس دن میری طبیعت بہت خراب تھی مجھے لگا کہ ڈلیوری کا ٹائم قریب ہے مگر میں جب جب اپنے شوہر کو کال کر رہی تھی ان کا نمبر بزی جا رہا تھا آخر کار میں نے اپنی امی کو اپنے پاس بلا لیا اور وہی مجھے لے کر ہسپتال روانہ ہو گئيں ۔ اس دوران جیسے ہی میرے شوہر سے میرا رابطہ ہوا میں نے ان کو بھی ہسپتال پہنچنے کا کہا جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فارغ ہو کر آتے ہیں

ہسپتال میں میں نے ایک بیٹی کو جنم دیا جو کہ بہت پیاری اور نازک سی تھی میرے شوہر بیٹی کی پیدائش کی خبر سن کر ہسپتال آۓ مگر بہت اکھڑے اکھڑے رہے جس کو میری امی نے بھی محسوس کیا مگر میں نے ان کا پردہ رکھتے ہوۓ کہہ دیا کہ کاروباری پریشانی ہے ورنہ بیٹی کی پیدائش پر تو بہت خوش ہیں

میں جب دوسرے دن گھر واپس آئي تو میرے شوہر نے جو مجھے بتایا اس نے میرے سر پر بم ہی پھاڑ دیا ان کا کہنا تھا کہ جس لڑکی سے وہ شادی کرنا چاہتے تھے اس کی اس کے شوہر سے طلاق ہو گئی ہے اور اب عدت کے بعد وہ اس لڑکی سے شادی کر لیں گے میں نے جب ان سے دریافت کیا کہ میرا کیا ہو گا تو ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے فیصلے کے لیۓ آزاد ہوں اگر بیٹی کو اپنے پاس رکھنا چاہوں تو ان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے

یہ کہہ کر وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر باہر چلے گۓ میں نے اس بارے میں اپنی ماں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا مگر ان کے ردعمل نے مجھے حیران کر دیا ان کا کہنا تھا کہ کسی صورت بھی شوہر کا گھر چھوڑنے کی ضرورت نہیں بیٹی کی ماں ہو طلاق کا داغ لے کر کس کس کو صفائی دیتی پھرو گی کہ تمھارا قصور نہ تھا ۔

مگر میرے شوہر کی اس محبوبہ نے میریے شوہر سے شادی کی شرط ہی یہ رکھی کہ وہ مجھے طلاق دیں گے اور اس بچی سے بھی جان چھڑائیں گے تبھی وہ ان سے شادی کرۓ گی اس کی عدت ہوتے ہی میں ہاتھوں میں طلاق کے کاغذات لیۓ اپنے میکے آگئی

جس نے سنا سب کا پہلا سوال یہی ہوتا کہ آخر ایسا کیا دیکھ لیا شوہر نے جو طلاق بھی دے دی اور بیٹی بھی اپنے پاس نہیں رکھی ۔میں لوگوں کو صفائیاں دیتے دیتے تنگ آگئی کبھی تو مجھے بھی یہی لگنے لگتا کہ جیسے میں ہی اخلاق باختہ تھی جس کے سبب میرے شوہر نے مجھے طلاق دی

طلاق تو مرد اور عورت دونوں ہی کو ہوتی ہے مگر اس کا داغ صرف عورت ہی کے ماتھے پر کیوں سجتا ہے مرد کے لیۓ کیوں نہیں۔ اب میں اس بچی کے ساتھ ہوں میں نے نوکری بھی کر لی ہے بیٹی کا خرچہ اٹھانا میرے لیۓ مسلہ نہیں مگر میں ہر ایک کے اس سوال سے پریشان ہوں کہ آخر طلاق کیوں ہوئی ؟؟؟

 

To Top