تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی کا تاریخی پس منظر،درحقیقت اسکی کہانی کیا ہے؟

تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی

اسرائیلی اوریہودی قوم کا شمارحضرتیعقوبؑ کے ماننے والوں میں ہوتا ہے۔ درحقیقت اسرائیل کا نام ہی حضرت یعقوبؑ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انکی قوم بنی اسرائیل کے  نام سے جانی جاتی ہے۔ مسلمانوں اوراسرائیلیوں سے متعلق دوواقعات ایسے ہیں جنکا تاریخی پس منظر نہایت دلچسپ ہے۔ تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی دوایسے واقعات ہیں جنکے حقائق بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔

تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی

Source: i.pinimg

یہودیوں نےایک مشکل وقت گزارنے کے بعد حضرت یوشع علیہ السلام اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے ہمراہ فلسطین کی جانب تجارت کی تا کہ وہ سرزمینِ عرب کو فتح کرسکیں۔ واضح رہےاسرائیل کے دورِحکومت میں حضرت موسٰیؑ کے بعد تین حکمران آئےتھے جن میں حضرت طالوت علیہ السلام، حضرت دائودعلیہ السلام، اور حضرت سلیمان علیہ السلام شامل ہیں۔ قصص الانبیا میں درج ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام نے حضرت طالوت علیہ السلام کی صاحبزادی سے نکاح کیا تھا۔

تابوت سکینہ ہے کیا،اور اس میں کونسی چیزیں موجود تھیں؟

تابوتِ سکینہ روحِ زمین پر نہایت مقدس چیزوں میں سے ایک ہے۔ دراصل یہ ایک صندوق کا نام ہے جس میں جلیل القدر پیغمبروں کے تبرکات اور آسمانی اشیاء رکھی گئی تھیں۔ یہ صندوق حضرت آدم علیہ السلام سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچا۔ اس کے حوالے سے یہ مانا جاتا ہے کہ اس صندوق میں حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت سلیمانؑ تک کے تبرکات محفوظ تھے۔

تاہم حضرت دائودؑ نےاس صندوق کی حفاظت کی اور اسے تابوتِ سکینہ کا نام دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس باکس میں’لوح القرآن‘ اورحضرت موسٰیؑ کاعصا بھی موجود تھا۔ اس کے علاوہ مقدس کتاب تورات کا اصل نسخہ بھی رکھا گیا تھا جو حضرت موسٰیؑ کو کوہِ سیناء کے مقام پر نازل ہوا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ خاص پیالہ بھی موجود تھا جو من و سلویٰ لانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

قرآن میں اسکا ذکر

قران میں تابوتِ سکینہ کے حوالے سےسورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ٢٤٨ میں کہا گیا ہے کہ: ” اور بنی اسرائیل سے ان کے نبی نے کہا کہ طالوت کی بادشاہی کی یہ نشانی ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق واپس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے اطمینان (تسلی) ہے، اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں ان میں سے جو موسیٰ اور ہارون کی اولاد چھوڑ گئی تھی، اس صندوق کو فرشتے اٹھا لائیں گے، بے شک اس میں تمہارے لیے پوری نشانی ہے اگر تم ایمان والے ہو”۔

چونکہ اس صندوق میں انبیاء کی وہ اشیاء موجود تھیں جو انہیں اللّٰہ کی طرف سے تحفے میں عطا کی گئی تھیں اسی لئےاس کواللّٰہ کی رضا سے یہ مقدس درجہ دیا گیا تھا۔ عوامی عقیدے کے مطابق ، ایسا نہیں تھا کہ اگراس تابوت کو مقدس درجہ دیاگیا تو لوگ دیگر تابوت کو بھی پوجنا شروع کر دیں۔ اس تابوت کو خدا کی مرضی کےتحت خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔ یہاں تک کے اسرائیلیوں کے لئے تابوتِ سکینہ انکے قبلے کی حیثیت رکھتا تھا۔

تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی

Source: Youtube

ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور اسکے وجود کی حیثیت

عام طور پر یہ تصوّر قائم ہے کہ جب صندوق حضرت دائودؑ کی تحویل میں تھا تب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اسکی حفاظت کے لئےایک محل نما مندرکی تعمیرکروائی جائے جس میں اس صندوق میں موجود انبیاء کرام کی مقدس چیزوں کوحفاظت سے رکھا جا سکے۔ تاہم طویل تعمیری دورانیہ کے باعث اس ہیکل کی تعمیر حضرت دائودؑ کی زندگی میں مکمل نا ہو سکی۔ لہٰذا اسے حضرت سلیمانؑ کے دورمیں مکمل کیا گیا۔ اور اس ہی وجہ سے اس کا نام ہیکل سلیمانی رکھا گیا۔

ِتابوتِ سکینہ ہیکل سلیمانی میں تب تک محفوظ رہا جب تک اہل بابل نے حملہ کر کے ہیکل سلیمانی کو تباہ نہ کر دیا۔ اس واقع کے بعد صندوق وہاں سےغائب ہوگیا۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ اہل بابل اسے اپنے ساتھ لے گئےتھے جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسے آسمان پر اٹھالیا گیا تھا۔

تاہم ، اس کے کچھ عرصے بعد ہی اسرائیلیوں نے دوبارہ ہیکل سلیمانی کو تعمیر کروانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس بار رومیوں نے اس مقدس جگہ کو نشانہ بنایا اوراسکو تباہ کرکہ وہاں ایک عیسائی چرچ قائم کر دیا۔ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں یروشلم فتح ہوا تو آپ ؓ خود یہاں تشریف لائے ۔ آپ ؓ نےرومیوں کی تعمیر کردہ عبادت گاہ سے کچھ فاصلے پر دعا فرمائی، یہ ٹھیک وہی جگہ ہے جہاں مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی۔

یہودیوں کا دعویٰ

اب یہودی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس جگہ مسجدِ اقصیٰ قائم ہے وہ ان کی ہے۔ اگرچہ وہ پورا خطّہ مسلمانوں کے لئے مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہودیوں کا یہ ماننا ہے کہ ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے مسجد کی قربانی دینا ضروری ہے۔ تاہم مقدس تبرکات کی تلاش کے نام پر مسجدِ اقصیٰ کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں، یہودیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ہیکل کی ایک بچ جانے والی پس ماندہ دیوارجہاں ایک دروازے بھی موجود ہے، قیامت سے قبل ان کے آخری نبی اوربادشاہ کے لئے راہ ہموار کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کودروازے کے سامنے دفن کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں یقین ہےکہ جب اس دروازے سے ان کا بادشاہ نکلے گا تو اس کے پیچھے تمام مردے اٹھ کھڑے ہوں گے، جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق قیامت کے قریب دجال کا ظہورہوگا اور تمام دنیا کے یہودی اس کی بادشاہت اورنبوت کوتسلیم کرلیں گے۔

If you want to read this article in English, click here.

To Top