اسٹیج ایکٹر قسمت بیگ کے قتل نے ایک سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے اور اسٹیج اور تھیٹر اداکاراوں پر ہونے والے پے در پے حملوں نے سب کو ان کی وجوہات کے بارے میں تجسس میں مبتلا کردیا ہے ۔ اگرچے قسمت بیگ کے قاتلوں کو نہ صرف کرفتار کر لیا گیا ہے بلکہ ان قاتلوں نے اقبال جرم بھی کر لیا ہے مگر اس اقبالی بیان سے باقی اسٹیج اداکاراوں کو کوئی فائدہ یا تحفظ حاصل نہیں ہو سکتا ہے ۔
اسٹیج ڈراموں کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہ انسان کی تفریح طبع کی سب سے قدیم صنف کہا جاۓ تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ اس پلیٹ فارم سے انسان نے ماضی میں بہت مثبت کام لۓ ہیں ۔ مشرق اور مغرب دونوں جانب تمثیل نگاری یکساں عزت کی حامل رہی ہے مگر پچھلے کچھ سالوں سے بالعموم پورے پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں اس پلیٹ فارم کو جن مقاصد کے لۓ استعمال کیا جا رہا ہے وہ قطعی اخلاقی نہیں ہے ۔
اسٹیج ڈرامہ اب نام رہ گیا ہے۔ اخلاق سے گرے ہوۓ اوچھے مزاق اور رقاصاؤں کے مختصر لباس میں فحش اور ننگے ڈانسوں اور اشاروں کا، یہ ڈرامے انسان اپنے اوباش دوستوں کے ساتھ تو دیکھ سکتا ہے مگر خاندان کے ساتھ نہیں ۔ اداکارائیں اپنے مختصر لباس کے ساتھ دیکھنے والوں کے جزبات کو اتنا مہمیز کر دیتی ہیں کہ وہ ان کے حصول کے لۓ ہر حد سے آگے جانے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔
پھر سلسلہ شروع ہوتا ہے دنیا کے قدیم معاشی اصول ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا، اس سلسلے کے تحت اداکارہ کو پیسہ چاہیۓ ہوتا ہے اور تماش بین کو رقاصہ بلاشرکت غیرے ، مگر چونکہ یہ تعلق ضرورت کی بنیاد پر قائم کیا جاتا ہے لہذا دیرپا نہیں ہوتا ، جہاں کوئی اور آکر اس سے بہتر اور زیادہ قیمت لگاتا ہے سپلائی وہاں شروع ہوجاتی ہے جو کہ تناؤ کا سبب بنتی ہے ۔
چونکہ یہ کاروبار کسی ضابطہ اخلاق کے تحت نہیں ہوتا اسی وجہ سے اس کے کوئی اصول نہیں ہوتے اور ٹکراؤ کی اس کیفیت میں انسان جانور کی طرح ردعمل کا اظہار کرتا ہے نتیجہ کے طور پر وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ جو میرا نہیں ہوا وہ کسی اور کا کیوں ہو اسی سبب وہ ایک انسانی جان لینے سے بھی نہیں شرماتا ۔
ان تمام حالات کو روکنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ایک ایسا ضابطہ اخلاق مرتب کیا جاۓ جس کے تحت اسٹیج کو فنون لطیفہ کی صنف رہنے دیا جاۓ اس کے اندر سے فحاشی اور گندگی کو ختم کیا جاۓ ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان ہی چیزوں کو دیکھنے لوگ آتے ہیں، ان کی اخلاقی تربیت کی جاۓ اور حکومتی ارکان کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہۓ جس کے ذریعے اس شعبے سے منسلک لوگ پیسے کی فکر سے آزاد ہو کر معیاری ڈرامے تخلیق کریں تاکہ شریف لوگ آکر یہ ڈرامے دیکھیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ جلد امیر بننے کی خواہش رکھنے والی اداکاراؤں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہیۓ کہ شارٹ کٹ کا راستہ اختیار کرنے والیاں قسمت بیگ کی طرح بدقسمت بھی ہو سکتی ہیں