پاکستان جب قائم ہوا تو اگرچہ اس کا حصول اسلام کے نام پر ہوا مگر اس کے باوجود بہت سارے دیگر مزاہب کے لوگ بھی اس کا حصہ بنے ان لوگوں نے بھی پاکستان کی سرزمین کو اپنے وطن کے طور پر قبول کیا اور ان کو بھی قائد اعظم محمد علی جناح نے وہ تمام حقوق دینے کا وعدہ کیا جو کہ تمام مسلمان شہریوں کو حاصل تھے
اقلیتی مزاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ہندو سکھ عیسائی سب ہی شامل ہیں جن کا شمار پاکستان کی اقلیتی آبادیوں میں کیا جاتا ہے اور ان کو تمام آئینی حقوق حاصل ہیں مگر بدقسمتی سے آج بھی ہمارے ملک کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں آئین و قانون بے بسی کی انتہاؤں پر نظر آتا ہے
ایسا ہی ایک علاقہ دیہی سندھ کا ٹنڈو میٹھا خان کا بھی ہے جہاں پر قیام پاکستان سے اب تک ہندو مسلم آبادی ایک دو سرے کے ساتھ مزہبی رواداری کے ساتھ رہتے آۓ ہیں ۔مگر گزشتہ کچھ عرصے سے وہاں سے ہندو برادری کی نقل مکانی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے جس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے کے با اثر لوگ وہاں کی سندو برادری کے لوگوں کو بزور طاقت مزہب تبدیل کروانے کی کوشش کر رہے ہیں
مگر حکومتی حلقوں کی جانب سے ہمیشہ اس حوالے سے تردیدیں سامنے آتی رہی ہیں مگر اب سوشل میڈیا پر ایک ایسا واقعہ سامنے آیا ہے جس نے حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے
تفصیلات کے مطابق کچھ دن قبل ایک کم عمر ہندو لڑکی سونیا ولد چیتن کو اغوا کر لیا گیا علاقہ مکینوں کے مطابق اس اغوا میں علاقے کے ایاک با اثر شخص موہ بخش کا ہاتھ ہے جو کہ سونیا سے دگنی عمر کا ہے
کچھ دنوں کے بعداس نے سونیا کو زبردستی اسلام قبول کروا کر اس کے ساتھ نکاح کر لیا اس کے اس فعل کے خلاف ٹنڈو میٹھا خان کی پوری ہندو برادری سراپا احتجاج ہے
اس قسم کے واقعات کا سدباب اس لیۓ کرنا بہت ضروری ہے کہ ان واقعات سے بین الاقوامی برادری کے اندر پاکستان کا تشخص بری طرح خراب ہوتا ہے ۔اس واقعے کے حوالے سے اب تک حکومتی ارکان کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آسکا ۔اسلام کی رو سے بھی زبردستی پڑھاۓ جانے والے نکاح کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی ارکان اس حوالے سے کیا کاروائي کرتے ہیں