میرا شوہر ایک نامرد ہے مجھے کیا کرنا چاہیۓ ایک لڑکی کا معاشرے سے سوال

میرے سامنے بیٹھی وہ لڑکی مجھے اپنی بیٹیوں ہی کی طرح عزیز تھی ۔ وہ میری ہونہار شاگرد تھی ۔ جس کے والدین پاکستان بننے کے دوران ہجرت کر کے آۓ تھے اور اپنا سب کچھ لٹا کر انے کے بعد کراچی میں آباد ہو گۓ تھے ۔رشتے داروں کے نام پر ان کے دور پار کے کچھ لوگوں کے علاوہ کوئی بھی نہ تھا ۔

آدھے لوگ ہجرت کے دوران قتل کر دیۓ گۓ تھے اور باقی لوگ ہندوستان ہی میں رہ گۓ تھے ۔ وقت کے ساتھ جب بیٹیاں جوان ہوئیں تو انہوں نے اپنی استعداد سے بڈھ کر ان کی تعلیم کا انتظام کیا لہذا ان کی تینوں بیٹیاں اعلی تعلیم یافتہ تھیں ۔ رشتوں کے لیۓ جب انہوں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ان کو کوئی عزیز نظر نہ آیا ۔

وقت تیزی سے گزر رہا تھا لہذا انہوں نے رشتہ کروانے والے دفتر سے  رجوع کیا ۔ ان کی سب سےبڑی بیٹی کی عمر بھی چھبیس سال ہو چکی تھی ۔ مناسب نین نقش کے ساتھ میری یہ شاگرد دنیا والوں کی نظر میں بہت پر کشش نہ تھی لہذا لوگ دیکھنے آتے اور واپس نہ آتے ۔ پھر اچانک ایک دن پتہ چلا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے دعوت نامہ مجھے بھی آيا اچھا مناسب بر مل گیا تھا ۔

لڑکا اپنے ماں باپ کے ساتھ ہی رہتا تھا ۔ ایک بہن شادی شدہ تھی اور گھر میں بس ماں باپ ہی تھے لڑکا ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم تھا ۔ سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا مگر لڑکا اس شادی سے کچھ بیزار سا نظر آرہا تھا عام طور پر ایسا ہو ہی جاتا ہے شادی کی تھکن اور کام کاج کے سبب اس لیۓ اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی گئي ۔

شادی کے بعد ایک طویل عرصے تک میرا بھی اپنی اس شاگردہ سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا مگر ایک شام وہ اچانک میرے گھر آگ‏ی اس کو دیکھ کر میں حیران رہ گئي اس کے نقش و نگار اور حلیہ سے وہ کسی بھی طرح ایک شادی شدہ لڑکی نہیں لگ رہی تھی نہ ہی اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور نہ ہی اس کے اندر شادی شدہ عورتوں والی کوئی بات ۔

جب میں نے اس سے اس کی حالت کے بارے میں استفار کیا تو اس کے جواب نے دہلا کر رکھ دیا اس کا کہنا تھا کہ شادی کی پہلی ہی رات اس کے شوہر نے اس کی جانب کروٹ بدل کر سو گیا ۔ اس نے اس کو تھکن سے معمور کیا مگر اس کا ہر رات کا یہ وطیرہ بن گیا اس کے شوہر کی کوشش یہی ہوتی کہ وہ رات میں کمرے میں اس وقت آۓ جب میں سو چکی ہوں ۔

میری ہر رات اس کے انتظار میں گزر جاتی اس نے میری جانب کسی قسم کے التفات کا مظاہرہ نہیں کیا تنگ آکر میں نے اپنی نسوانیت اور شرم و حیا کو ایک جانب رکھ کر جب تقاضا کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس قابل ہی نہیں ہیں ۔ ان کے اس رویے نے مجھے توڑ کر رکھ دیا ۔ میں نے ان کی ماں سے کہا کہ جب وہ اس قابل نہ تھے تو آپ نے شادی کیوں کی ۔

ان کا کہنا تھا کہ سب کچھ یہی تو نہیں ہوتا یہ دیکھو کہ اس کا سلوک تمھارے ساتھ کیسا ہے میں نے ان کو علاج کروانے پر بھی مجبور کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ اس سے ان کی بے عزتی ہو گی وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گے میں نفسیاتی طور پر ٹوٹ کر رہ گئي ہر ملنے والا مجھ سے یہی سوال کرتا کہ خوشخبری کب سنا رہی ہو مگر میرے پاس ان کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا ۔

میں نے جب اپنی ماں کو اس سارے معاملے کے بارے میں بتایا تو میری ماں نے روتے ہوۓ صرف یہی کہا کہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے سوچ لینا کہ تمھاری دو بہنیں ابھی گھر بیٹھی ہیں تم طلاق لے کر آجاؤ گی تو ان کا کیا ہو گا ان سے شادی کون کرے گا ۔

میری شادی کو ابھی صرف ایک سال ہوا ہے ایک طویل عمر میرے سامنے ہے آپ ہی بتائيں میں کیا کروں ؟ اور میرے پاس اس کے سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا.

To Top