ایک شوہر اپنی بیوی پر ظلم کرنے کا اسلامی حق رکھتا ہے علما کا بیان

میاں بیوی کا رشتہ ایک ایسا رشتہ ہوتا ہے جو نکاح کے بندھن سے باندھا جاتا ہے اور جس کا اختتام جنازے کی نماز پر ہی ہوتا ہے ۔حقوق و فرائض سے بھر پور اس رشتے کے بارے میں قرآن و سنت  میں مکمل آگاہی موجود ہے ۔مگر اس کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں ایسے سوال اٹھتے رہتے ہیں جن کا جواب علما قرآن و سنت کی روشنی میں دیتے ہیں ۔

[adinserterblock=”15″]

ایسا ہی ایک سوال ایک صاحبہ نے ایک عالم سے کیا کہ وہ اپنی بیوی پر کس حد تک ظلم کر سکتا ہے ؟ اس سوال نے ایک جانب تو معاشرے کے اس پہلو کی طرف توجہ دلا دی کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی بعض شوہر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ظلم روا رکھ سکتے ہیں اور اسلام اس کو اس بات کی اجازت دیتا ہے ۔

انوکھا سوال بیوی پر کس حد تک ظلم کر سکتے هیں؟

Posted by ‎میاں بیوی‎ on Sunday, August 13, 2017

اس کے بعد اس سوال کا جواب اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھا جس میں عالم دین نے اس بات کا جواب دینے کے بجاۓ کہ خاوند کو ظلم کرنا چاہیۓ یا نہیں اس کے بجاۓ انہوں نے پورا بیان اس بات پر کر دیا کہ بیوی کو شوہر کے ظلم سے بچنے کے لیۓ کیا کیا ٹوٹکے اختیار کرنے چاہیے ہیں ۔

یاد رہے میاں بیوی کا تعلق حقوق و فرائض کے توازن سے ہی کامیاب ہو سکتا ہے ۔صرف بیوی اپنے فرائض پورے کرتی رہے اور شو ہر اپنے فرائض کا خیال نہ رکھے تو یہ تعلق کسی بھی صورت پر سکون نہیں ہو سکتا ۔اگرچہ اسلام نے شوہر کو بیوی کے اوپر حاکم بنایا ہے ۔

مگر اس حکومت کی بھی کچھ حدود و قیود ہیں ۔صرف نکاح نامے میں شوہر کے خانے پر نام لکھ کر حاکمیت نہیں حاصل کی جاسکتی ۔اس کے لیے شوہر کو وہ تمام فرائض بھی انجام دینے ہوں گے جس کی بنا پر وہ اس حاکمیت کے قابل ہو سکے ۔

اس میں سب سے سرفہرست بیوی کے نان نفقے کی ذمہ داری ہے جو اسلام نے کلی طور پر شوہرکے اوپر ڈالی ہے ۔اسلام کے مطابق ایک شوہر پر یہ واجب ہے کہ وہ نہ صرف بیوی کے اخراجات کا بار اٹھاۓ ۔اس کو چھت مہیا کرے ۔

جب شوہر ان فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے تو پھر جیسا کہ آج کل کے دور میں دیکھا گیا ہے کہ بیوی کی مدد لی جاتی ہے ۔اور بیوی بھی گھر سے باہر نکل کر شوہر کا ہاتھ بٹانے لگتی ہے ۔ان حالات مین جب بیوی شوہر کی مدد گار بن جاتی ہے ۔تو پھر ایسے حالات میں شوہر کو بھی چاہیۓ کہ وہ حاکمیت کے اس اعزاز میں تھوڑی تخفیف کرے ۔

ان حالات میں بیوی کے ساتھ اس کے کاموں میں شوہر  بھی شریک ہو ۔عموما تناؤ ان ہی گھروں میں دیکھنے میں آتا ہے جہاں شوہر کو بیوی معاشی میدان میں تو گاڑی کا دوسرا پہیہ نظر آتی ہے ۔مگر گھر کے اندر وہ صرف اور صرف حاکم بن جاتا ہے ۔

 

To Top