‘تم امام حسین کے قاتل ہو” عاشورہ کے جلوس میں نوجوانوں نے یہ کہہ کر کس پر حملہ کر ڈالا

پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے اس کے قیام کے وقت تمام مسلمانوں نے مل کر اس کے حصول کی جدوجہد میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔ اس وقت میں کہیں پر بھی یہ نہیں کہا گیا تھا کہ یہ ایک سنی ریاست ہو گی یا شیعہ ریاست ہو گی ۔مسالک کی یہ تفریق اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے کی گئی

اسلام دشمن قوتوں کا یہ ہتھکنڈہ کتنا کامیاب رہا اس کا فیصلہ آپ خود بہتر طور پر کر سکتے ہیں ۔ہر سال یکم محرم کی آمد کے ساتھ ہی پوری پاکستانی قوم واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور دونوں گروہ اس بات کا دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ درحقیقت امام حسین کے حقیقی وارث ہیں جب کہ دوسرے مسلک والے ہی وہ قابل نفرین لوگ ہیں جو کہ امام حسین اور ان کے ساتھیو کے قتل کا سبب بنے

امام حسین کے قاتل کون تھے یہ واضح طور پر تاریخ میں موجود ہے مگر ہمارے بچے جو کہ کچے ذہنوں کے حامل ہوتے ہیں اور سنی سنائي باتوں اور روایات کو ہی کافی سمجھتے ہوۓ اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں ان کا تعلق چاہے شیعہ مکتب فکر سے ہو یا سنی مکتبہ فکر سے بزرگوں کی نفرت کو میراث سمجھتے ہوۓ سامنے والے کو کافر ،قاتل اور نہ جانے کیا کیا سمجھ بیٹھتے ہیں

ایسا ہی ایک واقعہ یوم عاشور کے بعد سوشل میڈیا کی زینت بنا جس کو پڑھنے کے بعد آپ خود ہی فیصلہ کیجیۓ گا کہ ہم اپنی نئي نسل کو کس طرف لے جا رہے ہیں

اسد اللہ خان نامی اس شخص نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ وہ عاشور کے دن اپنے گھر سےضروریات زندگی کے کچھ سامان کی خریداری کے لیۓ نکلے اس وقت میرے سامنے ہی سے عاشور کا جلوس بھی نکل رہا تھا اس جلوس میں سے چودہ پنرہ سال کے کچھ لڑکے میری طرف بڑھے اور انہوں نے مجھ  سے دریافت کیا کہ میں کہاں جا رہا ہوں جب مین نے ان کو بتایا کہ مارکیٹ ت جا رہا ہوں تو ان میں سے ایک نے کہا

جھوٹ بولتا ہے سالے دہشت گرد تو یہاں خود کش دھماکہ کرنے آیا ہے نا

میں نے ان کی بات کو ان کی شرارت سمجھتے ہوۓ جلوس کے راستے سے ہٹ کر جانے کی کوشش کی مگر انہوں نے نہ صرف میرا راستہ روک لیا بلکہ مجھے ماں بہن کی گالیاں دیں

اور مجھے یزیدی گھوڑے،شمر اور امام حسین کے قاتل کے نام سے پکارنے لگے

اس وقت مین ان کے ہاتھوں میں وہ چھریاں تھیں جس سے وہ ماتم کر رہے تھے میں نے ان سے استفار کیا کہ میں اتنی عظیم ہستیوں کو کس طرح مار سکتا ہوں تو انہوں نے جواب دیا

تیرے ہی باپ دادا نے مارا تھا

اس وقت میں سفید لباس میں ملبوس تھا اور میرے چہرے پر سنت رسول کے مطابق داڑھی بھی تھی ان میں سے ایک نے کہا

تم دہشت گردوں کا یہی حلیہ ہوتا ہے تم یزیدیوں کو تو جان سے مار دینا چاہیۓ

یہ کہتے ہوۓ انہوں نے مجھ پر چھریوں سے حملہ کر دیا بچاؤ کے دوران میرے ہاتھوں پر بھی چوٹیں آئیں اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میرے جسم کے نازک حصوں پر حملہ کر دیا جس کے سبب میرے جسم کے نازک حصے سے اوپر گہرے زخم آۓ اور چھ ٹانکے بھی آۓ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ

تم لوگوں کی تو نسل ہی ختم کر دینی چاہیۓ

اسی دوران میرے بہتے خون کو دیکھ کر اور پولیس موبائل کی آواز سن کر وہ لڑکے فرار ہوگۓ اس موقعے پر اسد اللہ صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ میں سنی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں مگر میرے دل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ان کی آل کی بتنی ہی محبت ہے جو کسی بھی مسلمان کے دل میں ہو سکتی ہے

شیعہ اور سنی دونوں ہی مسالک کے لوگ اللہ کے رسول اور ان کی آل سے محبت کے دعویدار ہیں تو پھر اپنی اپنی نئی نسل کے دلوں میں یہ نفرت کیوں بھر رہے ہیں

 

To Top