کیا شرمین عبید چناۓ اس مظلوم لڑکی کی آواز بنے گی؟

جاہلیت کے دور کو جاہلیت کا دور کیوں کہا جاتا تھا ؟ لوگ کہتے ہیں اس دور میں قبیلوں کے بیچ کی دشمنیاں سالوں تک چلتی تھیں۔ ان کا کوئی ضابطہ اخلاق بھی نہ ہوتا تھا۔ باپ کے جرم کی سزا بیٹے کو دی جاتی تھی۔ اور عورتوں کا تو سوال ہی نہیں ہوتا تھا۔ ان کی حیثیت بھیڑ بکریوں جیسی ہوتی تھی۔ کبھی ان کا لین دین ہوتا تھا تو کبھی ان کو ان ناکردہ گناہوں کی سزا سنا دی جاتی تھی جو ان سے سرزد بھی نہ ہوتا تھا۔

پھر جب شعور کی کرنیں پھوٹیں تو جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ ہوتا گیا۔ ان کو وہ درجہ ملا جس نے ان کو ام المومنین بنایا۔ جس نے ان کو ماں بہن اور بیٹی بنایا جس نے ان کے قدموں تلے جنت بچھا دی ۔ تہذیب کے اس سبق کے ساتھ ہم لوگ آج اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ مگر یہ سانسیں تب بوجھ لگنے لگتی ہیں جب ہمیں اپنے اردگرد وحشت و بربریت کی داستانیں بکھری نظر آتی ہیں۔

ان تمام خبروں کو ہمارا سوشل میڈیا ایک دن کے لۓ ٹرینڈ بھی بناتا ہے۔ اس پرلائک ، کمنٹس اور شئیر ملتے ہیں اور پھر یہ آوٹ آف ٹرینڈ ہو جاتی ہیں۔ مگر اگر خبر کسی سیلیبریٹی کی ہو تو پھر تو بحث ہفتوں تک چلتی ہے۔ یہی کچھ اس بار شرمین عبید چناۓ والے معاملے میں ہوا جہاں ایک فرینڈ ریکویسٹ ہراسمنٹ کے زمرے میں داخل ہو گئی اور اس کی موافقت اور مخالفت میں دلیلوں کے انبار لگ گۓ ۔

 

ہراساں کرنے کی تعریف معاشرے کے ہر فرد کے لۓ جدا جدا کیوں ہے۔ یہی فرینڈ ریکویسٹ اگر شرمین عبید چناۓ کی بہن اس ڈاکٹر کو بھیجتی تو اس کے لۓ اعزاز ہوتی ۔ مگر اس ڈاکٹر نے بھیجی تو ہراساں کرنے کا الزام بن گئی۔ بہت ہی اچھی بات ہے کہ شرمین عبید نے اپنی بہن کی پریشانی کے لۓ آواز اٹھائی۔ مگر جس وقت اس کی بہن کو اس ڈاکٹر نے ریکویسٹ بھیجی تھی اسی وقت ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک چھوٹے سے علاقے چوہواں میں پانچ افراد اسلحے کے زور پر ایک معصوم سولہ سالہ لڑکی شریفاں کو بھی برہنہ کر رہے تھے۔

ایک لڑکی کے پاس اپنے بچاؤ کے لۓ ایک دوپٹہ ہی تو ہوتا ہےاس کو سرعام اتار کر اپنے پیروں تلے مسلنے والے بھی کوئی اور نہیں ہمارے ہی معاشرے کے فرد تھے۔ سولہ سالہ اس معصوم بچی کے کرب کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا جس پل اس کے لباس کی دھجیاں اس کے گرد پڑی ہوں گی اس پل اس نے خود کو خاک میں چھپانے کی کوشش تو کی ہو گی۔

اپنے بے لباس وجود کو ہاتھوں سے ڈھانپنے کی کوشش میں ناکام ہونے کے بعد اس نے آسمان پر نظر تو ڈالی ہو گی۔ کسی مسیحا کسی قاسم کو پکارا تو ہو گا۔  ایک ایک در گھٹکھٹا کر ایک چادر کا سوال تو کیا ہو گا۔ہر در بند پا کر وہ تھک گئی ہو گی۔ اس کے آنسو جس خاک پر گرتے رہے وہ تو اب بنجر ہو گئی ہو گی۔

جب یہ وحشت اور بربریت کا کھیل کھیلا جا رہا تھا ہم سب اس وقت کیا کر رہے تھے؟ اس بات پر بحث میں مصروف تھے کہ شرمین عبید چناۓ کی بہن ہراساں ہوئی یا شرمین عبید چناۓ نے ڈاکٹر کو ہراساں کیا۔

کیا یہ ہراساں کرنا ہے یا ایک فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا ؟ اس معصوم لڑکی کو ایک گھنٹے تک برہنہ حالت میں اس گاؤں کی گلیوں میں گھمایا جاتا رہا۔ گاؤں کے لوگوں نے خوف کے سبب اس کو اپنے گھروں میں گھسنے تک نہ دیا ،وہ روتی ،چلاتی فریاد کرتی رہی اور غنڈے اس کو ہراساں کرتے رہے۔

کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ شرمین عبید اپنی بہن کے ساتھ ساتھ اس بہن کے لۓ بھی آواز اٹھا لیتی ۔ اپنی آواز کی طاقت سے اگر اس ڈاکٹر کو ملازمت سے نکلوا سکتی تھی تو اس لڑکی کو ہراساں کرنے والو کو بھی گرفتار کروا دیتی

To Top