مجھے اپنے شوہر سے روپے پیسے گھر بچوں کے علاوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھی چاہیۓ ایک شادی شدہ عورت کی انوکھی داستان

میرے پاس بظاہر سب کچھ تھا ایک خوبصورت گھر ایک کامیاب شوہر دو بچے غرض دنیا کی ہر نعمت مجھے میسر تھی ۔ مگر اس کے باوجود میرے اندر کی بے چینی کسی صورت کم نہ ہو پا رہی تھی ۔ مجھے اپنے سے جڑی ہر شے کم تر لگتی ۔ مجھے اپنا آپ بے مایہ لگتا ۔ میرے شوہر مزاج کے اچھے انسان تھے ۔خاموش طبیعت اپنےکام سے کام رکھنے والے ۔

مہینے کے شروع میں تنخواہ میرے ہاتھ پر رکھ کر بے فکر ہو جاتے تھے ۔ ان کی تنخواہ اتنی ہوتی تھی کہ جس میں میں نہ صرف آسودگی سے گزارا کر لیتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بچت بھی کر لیا کرتی تھی ۔دیکھنے والے میری زندگی پر رشک کرتے تھے جب کہ مجھے یہ زندگی بیاباں صحرا کی مانند لگتی تھی

میں اپنا نقطہ نظر عام طور پر لوگوں کو سمجھا نہیں پاتی تھی یا لوگ اس کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے ۔میری زندگی میں سب کچھ ہوتے ہوۓ رومانس یا محبت کی شدید کمی تھی جس کے سبب مجھے اپنی زندگی نا مکمل لگتی تھی ۔ ایسا نہیں تھا کہ ہمارے ازدواجی تعلقات میں کسی قسم کی نا آسودگی تھی مگر ہماری بیڈ روم لائف بھی ایک عام روٹین لائف کی طرح تھی

میں جو محبت کے خمیر سے گندھی عورت تھی میری خواہش ہوتی تھی کہ ان پلوں میں میرے شوہر مجھ سے محبت کا اظہار کریں مجھ اپنی محبت کایقین دلائیں مگر وہ اس معاملے میں قظعی کورے تھے اپنی ضرورت کی تکمیل کے بعد کروٹ بدل کر سو جاتے اور میں ساری ساری رات روتے ہوۓ گزار دیتی کہ اس طرح تو کال گرل کے ساتھ ہوتا ہے بیوی سے تو محبت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں تعلق پیدا ہوتا ہے ۔

شادی کی پہلی رات سے جو برف ہمارے تعلقات پر جمی تھی وہ آج تک پگھل نہیں پائی تھی ایسا نہیں تھا کہ میں نے اپنے طور پر اس برف کو پگھلانے کی کوشش ہی نہیں کی مگر میرے شوہر اس قسم کے جزبات سے عاری انسان تھے انہیں یہ سب چونچلے لگتے تھے جن کو کرنے کے لیۓ وہ قطعی طور پر تیار نہ تھے

اس دن تو میرے سر پر پہاڑ ہی ٹوٹ پرا جب میں نے ان کا ہاتھ تھام کر ان سے سوال کیا کہ اگر ان کو میں نہ ملتی تو وہ کیا کرتے تو ان کا جواب تھا کہ کسی اور سے شادی کر لیتا ۔ مجھے اس پل اپنی کم مائگی کا ایسا احساس ہوا جس نے مجھے ذلت کی پستیوں میں دھکیل ڈالا ۔ میں نے اس سب کا ذکر اپنی دوستو سے کیا تو سب نے مجھے ہی ملامت کیا کہ تم ناشکری کر رہی ہو ۔

میں سب کو کس طرح سمجھاؤں کہ عورت کھاۓ پیۓ بنا تو رہ سکتی ہے مگر محبت کے بنا نہیں رہ سکتی ۔ میں ڈراموں فلموں کے زیر اثر رہنے والی کوئي کم عمر لڑکی نہ تھی دو بچوں کی ماں ایک پچیس سالہ عورت تھی ۔مگر محبت کی اس خواہش نے مجھے توڑ ڈالا تھا میں ملنے جلنے والے جوڑوں کو حسرت سے دیکھتی کہ کس طرح وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ لاڈ دلار کرتے اور اپنے شوہر کو دیکھتی جو بغیر کسی کام کے مجھے پکارتے تک نہیں تھے ۔

کبھی کبھی مجھ لگتا اس سب کا سبب میرے اور میرے شوہر کی عمروں کا فرق ہے مگر صرف پانچ سال کا فرق کس طرح اتنے برے حالات پیدا کر سکتا ہے یہ بات میری سمجھ سے قاصر تھی میری حیثیت کمرے میں رکھے گلدان سے زیادہ نہ تھی ۔ ایک دن میرے شوہر کے دفتر جانے کے بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔

دروازے پر ایک نوجوان تھا جس کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے برابر والے گھر میں شفٹ ہوۓ ہیں اس کو ٹھنڈا پانی چاہیۓ تھا میں نے اس کو پانی کی بوتل دی تو اس نے کہا مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس محلے میں اتنے خوبصورت لوگ بھی رہتے ہیں ۔ اس کی یہ بات بظاہر تو مجھے بہت بری لگی

مگر اس کے بعد میں نے جب سوچنا شروع کیا تو مجھے بہت اچھا لگا یہی تعریف تو میں اپنے شوہر سے چاہتی تھی ۔اس کے بعد تو ایک سلسلہ شروع ہو گیا میری حوصلہ افزائی کے نتیجے میں وہ اکثر ہمارے گھر آجاتا اور اپنے خوبصورت لفظوں کے ذریعے مجھے اپنا گرویدہ بناتا گیا

میرا دل چاہتا کہ میں اپنے شوہر کو چھوڑ دوں مگر اس نے کبھی بھی مجھ سے اس طرح کی محبت کا اظہار نہ کیا تھا ایک دن میں نے خود ہی اس سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے ؟

مگر اس کے جواب نے مجھے عرش سے فرش پر دھکیل دیا اس کا کہنا تھا کہ محبت ! یہ کس چڑیا کا نام ہے ؟ وہ تو صرف اچھی کتابیں پڑھ کر اچھی باتیں کرتا ہے اور دو بچوں کی ماں سے محبت کرنے کے بارے میں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا

اس دن کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ محبت صرف وہی نہیں ہوتی جو لفظوں میں بیان ہو بلکہ محبت وہ ہوتی ہے جو عمل سے ثابت ہو جیسے میرے شوہر ہم سب سے کرتے ہیں ہم سب کے آرام سکون کے لیۓ محنت کرتے ہیں اپنی ساری ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں

اس کےبعد سے میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے بھٹکنے سے بچا لیا اب میرا گھر صرف لوگوں ہی کی نظر میں نہیں میری نظر میں بھی ایک مٹالی گھر ہے

To Top