‘میں اس شادی کو کیا نام دوں ‘

اس کی آج شادی تھی ۔لڑکیان اس کو اپنےگرد گھیر کر بیٹھی تھیں ۔ کوئي ڈھولک پر گیت گا رہا تھا تو کوئی اس کو گدگدانے اور چھیڑنے کی کو شش کر رہا تھا ۔وہ خالی دماغ اور خالی نظروں سے ان کو دیکھے جا رہی تھی ۔

اس کو سمجھ نہیں آدہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ایک تو اس کی عمر بھی کم تھی اور پچھلے ایک ہفتے میں اس کے ساتھ ہونے والے واقعات نے اس کو سوچنے سمجھنے کے قابل ہی نہ چھوڑا تھا ۔

اس روز جب وہ اسکول سے گھر آئی تو غیر معمولی خاموشی نے اس کا استقبال کیا پتہ چلا کہ اس کی امی اور تائی کسی عزیز کے انتقال کے سبب تعزیت کے لیۓ گئی ہیں ۔ اور گھر میں اس کی بوڑھی دادی اور وہ اکیلی تھیں ۔

وہ آٹھویں جماعت کی ہونہار طالبہ تھی ۔زندگی میں کچھ کر دکھانے کا جزبہ تھا ۔اسی وجہ سے وہ اپنی پڑھائی پر بہت توجہ دیتی تھی ۔ اس کے ماں باپ کا بھی اس کے اور اس کے چھوٹے بھائی کے علاوہ کوئی سہارہ نہ تھا ۔

اسی گھر میں اس کے تایا کا خاندان بھی رہتا تھا ۔ جن کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ۔بیٹیوں کی شادی ہو چکی تھی اور بییٹا کالج میں پڑھ رہا تھا ۔وہ اس کو بھائی کہہ کر پکارتی تھی ۔

کھانا کھانے اور یونیفارم بدلنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آگئی ۔اس کو نیند آرہی تھی ۔ اس کو سوۓ نہ جانے کتنی دیر ہوئی تھی کہ اچانک ایک نامانوس سے احساس کے ساتھ اس کی آنکھ کھل گئی ۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا ۔ کسی کا بھاری ہاتھ اس کے منہ پر تھا اور اس کا جسم کسی بوجھ تلے دبا جا رہا تھا ۔

جب اس کی آنکھیں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو اس نے دیکھا کہ اس کے تایا کا بیٹا اس کے منہ پر ہاتھ رکھے اس کے اوپر چڑھا ہوا تھا ۔ اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی ۔ اس نے اس کو بھنبھوڑنا شروع کر دیا ۔

وہ چیخنا چاہتی تھی مگر اس کا منہ بند تھا ۔آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپک ٹپک کر گر رہے تھے ۔وہ اپنے آپ کو برباد ہوتے دیکھ رہی تھی مگر کچھ کر نہ سکتی تھی ۔ اتنے میں اس کے کمرے کا دروازہ زور سے کھلا ۔

[adinserterblock=”15″]

اس کی امی تعزیت کر کے واپس آگئی تھیں مگر کمرے کا منظر ان کے لیے حیران کن تھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں اس کا کزن تیزی سے کمرے سے باہر چلا گیا ۔ اس کے بعد بہت کچھ ہوا کسی نے اس کی بے گناہی پر یقین نہیں کیا ۔

اور آج اس کے اسی کزن کے ساتھ اس کی شادی کروائی جا رہی تھی تاکہ اس کے اس کزن کو اس کی عزت لوٹنے کا قانونی حق دیا جا سکے

To Top