ہمارے معاشرے کی شادی کی رنگا رنگ رسومات کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے

شادی بیاہ پاکستان کا موسم پاکستان کا پانچواں موسم کہا جاۓ تو کچھ غلط نہ ہو گا ۔دسمبر کے مہینے میں آنے والا موسم ہر ایک کو اپنی لپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔شرعی فریضہ کو ہم نے معاشرتی رسوم و رواج کے ذریعے انتہائی مشکل اور دشوار بنا دیا ہے ۔

[adinserterblock=”15″]

اس شرعی فریضے کا سب سے اہم جز نکاح ہوتا ہے مگر ہر خاندان نے شادی بیاہ میں نکاح سے قبل ایسے ایسے رواج اپنا لیۓ ہیں جس نے شادی کے اس عمل کو مذہبی سے زیادہ معاشرتی عمل بنا ڈالا ہے ۔ایسے ہی کچھ رسوم و رواج کے بارے میں آج ہم بیان کریں گے ۔

منگنی کی رسم

اورتم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم عورتوں کو اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دو ۔ البقرۃ ( 235 ) ۔ یعنی اسلام میں نکاح کا پیغام دینے کی اجازت ہے بلکہ پیغام کے بعد ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھ لینے کی بھی اجازت ہے ، ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا،

مگر ہمارے ہاں اس اجازت کو ایک رسم کی حیثیت دے دی گئی ہے جس میں لڑکا اور لڑکی زرق برق لباس میں ایک دوسرے کو انگوٹھی پہناتے ہیں اور دونوں خاندانوں میں اپنی حیثیات سے بڑھ کر تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے ۔

برائیڈل شاور یا بیچلر نائٹ

یہ رسم حالیہ دنوں ہی میں مغرب کی تقلید میں شروع کی گئی ہے ۔اس میں دلہن کی کنواری سہیلیاں آتی ہیں ۔اور دلہن کی شادی سے قبل کے دن کو ایک ساتھ گزارتی ہیں ۔اسی طرح دولہا کے کنوارے دوست اپنے دوست کی آزادی کا آخری دن ایک جشن کی طرح مناتے ہیں ۔اس دن رقص و موسیقی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ایک ہی عمر کے افراد بزرگوں کی نظروں سے آزاد ہو کر جشن مناتے ہیں ۔

مہندی مایوں کرنا

مہندی لگانا اسلام میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے مگر دلہن کو مہندی لگانا اور اس مہندی کو اس کی سہاگن ہونے کی علامت سمجھنا سراسر ہندوانہ تہذیب کی تقلید ہے ۔ اس موقع پر ہمارے لوگوں میں ایک بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں لڑکے اور لڑکی کو نہ صرف مہندی لگائی جاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رقص و سرور کی محفل کا بھی اہتمام ہوتا ہے جس نے سفید پوش افراد کے لۓ شادی کے بار میں گوناگوں اضافہ کر دیا ہے ۔

بارات کے کھانے کا اہتمام کرنا

ہمارے معاشرے میں اس رسم نے ایک لازمی رسم کی حیثیت اختیار کر لی ہے جس میں نکاح کے لیۓ آںے والے مہمانوں کی خاطر مدارت انتہائی پر تکلف انداز میں کی جاتی ہے اور اس کو اپنی بیٹی کی آئندہ زندگی کی خوشیوں کا ضامن سمجھا جاتا ہے ۔ جتنی زیادہ آؤ بھگت باراتیوں کی ہو گی اتنا ہی ان کے اوپر لڑکی والوں کا رعب ہو گا ۔

جہیز کی لعنت

اسلامی روایت کے مطابق جہیز سے مراد اس سامان کی ہے جو کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو نئی زندگی کی شروعات میں لازمی سامان زندگی کے طور پر دیتا ہے ۔مگر بدقسمتی سے ہم نے جہیز میں وہ سارا سامان شامل کر دیا ہے جو کہ اس کی پوری زندگی کے لۓ کافی ہوتا ہے ۔سوئی سے لے گاڑی تک شامل ہوتا ہے ۔

اس سب کا بار سراسر بیٹی والوں پر ہوتا ہے جو کہ اپنی بیٹی کو اتنے اخراجات کے سبب بوجھ سمجھنے پر حق بجانب ہوتے ہیں ۔

چوتھی کی دعوت

یہ دعوت اس وقت کی جاتی ہے جب لڑکی کو پہلی دفعہ میکے سے شادی کے بعد لینے کے لۓ سسرال والے آتے ہیں ۔دولہا کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والوں کے لۓ بھی انتہائی پر شکوہ دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے جیسے کہ وہ دلہن کو اپنے گھر لے جا کر احسان عظیم فرما رہے ہوتے ہیں ۔اس موقعے پر دولہا کی سالیوں کی جانب سے جوتا چھپائی کی رسم بھی کی جاتی ہے جس کی نہ کوئی عقلی دلیل موجود ہے اور نہ ہی مذہبی ۔

ایسی ہی رسومات کے ساتھ شادی جیسا انتہائی اہم مذہبی فریضہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے جو کہ خوشی کے بجاۓ ایک بار کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔

 

 

To Top