شادی انسانی زندگی کا وہ موڑ ہے جو انسانی زندگی کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے ۔یہ موڑ بعض جوڑوں کے لیۓ انتہائی خوشگوار بھی ثابت ہوتا ہے اور بعض افراد کے لیۓ یہ ایک خوفناک خواب ثابت ہوتا ہے یا وہ گلے میں پڑا ڈھول ثابت ہوتا ہے جس کو ہر حالت میں بجانا پڑتا ہے ۔
اس میں ایک کردار تو ہمارے بزرگوں کا بھی ہوتا ہے جو کہ شادی کے حقیقی معنی بتانے کے بجاۓ اس کا نام چند تقریبات اور نۓ کپڑوں کے طور پر رکھ لیتے ہیں یا پھر میڈیا کا کردار ہوتا ہے جس کے مطابق شادی رومانس کا دوسرا نام ہوتا ہے اسی سبب جب بھی شادی کی پہلی رات کا ذکر کسی کے بھی سامنے کیا جاتا ہے تو ان کے ذہن میں ایک سرخ پردے اور روشنی کے چند جھماکوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔
اسی حوالے سے کچھ نکات بیان کیۓ جا رہے ہیں جو اسلامی نقطہ نظر سے نوبیاہتا جوڑوں کا جاننا بہت ضروری ہے ۔
شادی کی پہلی رات دخول ہونا لازمی نہیں ہے
شادی کی پہلی رات دولہا اور دلہن دونوں پر ایک دباؤ ہوتا ہے وہ اپنی جنسی زندگی کا آغاذ کرنے جا رہے ہوتے ہیں یہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس سے دونوں ہی نابلد ہوتے ہیں ۔اس موقعے پر یہ سوچ لینا کہ پہلی ہی رات جنسی سفر کا آغاذ مکمل کامیابی سے ہوجاۓ ایک غیر مناسب بات لگتی ہے ۔
میاں بیوی کی زندگی کا ساتھ ایک رات کا نہیں ہوتا بلکہ یہ عمر بھر کا ساتھ ہوتا ہے لہذا اپنے جیون ساتھی کو سمجھنے کا آغاذ کسی بھی قسم کی زبردستی کے ساتھ کرنے کے بجاۓ ایک دوسرے کو موقع دیں کہ قربت کے ان مرحلوں کو باہمی سمجھوتے اور خوش اسلوبی کے ساتھ طے کیا جاۓ ۔
جنسی عمل ایک پاک اور حلال عمل ہے
اللہ تعالی نے انسان کو جہاں دیگر بشری ضروریات کے ساتھ پیدا کیا ہے ان میں سے جنسی عمل بھی ایک ضرورت ہے جس کی تکمیل کے لیۓ اللہ نے شادی کے حلال عمل کا بھی تعین کیا ہے ۔ اور ان کے درمیان محبت پیدا کرتے ہوۓ انہیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے ۔
قرآن میں سورۃ الروم کی اکیسویں آیت میں فرمان ربی ہے اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمہارے لیے تمہیں میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان کے پاس چین سے رہو اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی، جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔
جنسی عمل ایک تکلیف دہ عمل نہیں ہے
جنسی عمل کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے اسی سبب ہوتا یہ ہے کہ خاص طور پر لڑکیاں اس خوف میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ شادی ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے ۔مگر اس حوالے سے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ اس عمل کو پہلی بار کرنے پر اگرچہ کسی حد تک تکلیف ہوتی ہے مگر وقت کے ساتھ یہ عمل تکلیف دہ نہیں رہتا
حدیث نبوی ہے کہ جب تم اپنی بیویوں کے قریب جاؤ تو ان کے ساتھ اس طرح عمل کرو جیسے کسی نازک پرندے کے پاس جایا جاتا ہے ۔یعنی آہستگی اور نرمی کے ساتھ
پردہ بکارت سے عورت کا باکرہ ہونا لازمی شرط نہیں ہے
یہ تاثر اکثر مردوں میں پایا جاتا ہے کہ عورت کے باکرہ ہونے کی دلیل اس کا پردہ بکارت ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں جاری ہونے والا خون اس کے باکرہ ہونے کو ثابت کرتا ہے مگر اب میڈیکل سائنس اس عمل کو ثابت کر چکا ہے کہ ہر انسان کے اندر پردہ بکارت کی موٹائي جدا جدا ہوتی ہے اور بعض اوقات طبعی حالتوں یا حیض کے سبب یہ پردہ سلامت نہیں رہتا اسی وجہ سے اس کی بنیاد پر کسی عورت کے کردار کو جانچنے کا عمل غیر حقیقت پسندی پر مبنی ہے ۔
دخول کے لیۓ غیر فطری راستوں کا استعمال ممنوع ہے
اللہ تعالی نے بیویوں کو مرد کی کھیتی قرار دیا ہے مگر جس طرح کھیتی کرنے کے کچھ اصول وضع کر دیۓ گۓ ہیں اسی طرح بیویوں کے پاس جانے کے بھی کچھ اصول اور راستے اللہ نے بتا دیۓ ہیں انہی راستوں کو اپنانے کا حکم ہے ۔بعض لوگ اس حوالے سے غیر فطری راستوں کو اختیار کر لیتے ہیں اس حوالے سے اسلام میں سختی سے منع کیا گیا ہے ۔
ایام حیض میں مباشرت کرنے سے منع فرمایا گیا ہے
ایام حیض میں اسلام کی رو سے بیویوں کے ساتھ مباشرت کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اسلام پاکی اور طہارت کا دین ہے اس لیۓ اس میں مباشرت کے اس عمل میں بھی اس کی پاکیزگي کو برقرار رکھنے کے لیۓ ضروری ہے کہ ناپاکی کی حالت میں اس عمل سے اجتناب برتا جاۓ
ان تمام احکام کا جاننا نوبیاہتا جوڑوں کے لیۓ نہ صرف ضروری ہے بلکہ نوبیاہتا جوڑوں کو چاہیۓ کہ شادی سے قبل ان تمام امور سے آگاہی حاصل کریں