شادی کے خواہشمند ایک نوجوان لڑکے کی سچی آپ بیتی

میرا تعلق ایک متوسط طبقے سے تھا میرے والد ایک کریانہ کی دکان چلاتے تھے اور میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا میری دو بہنیں جن میں سے ایک مجھ سے بڑی جب کہ دوسری مجھ سے دو سال چھوٹی تھی میری پرورش میرے ماں باپ نے شروع ہی سے اس احساس ذمہ داری کے ساتھ کی تھی کہ تمبیٹے ہو بہنوں کے محافظ ہو یہ بہنیں تمھاری ذمہ داری ہیں

اسی احساس ذمہ داری کے تحت میں نے جلدی جلدی ڈپلوما کورس کر کے ایک پرائیویٹ فرم میں نوکری کر لی اسی دوران میری بڑی بہن کی شادی کی بات چلی اور اس میں بھی ایک بھائی کی حیثیت سے میں نے پورا ساتھ دیا اور اپنے والد کا بازو بن کر اس فرض کو ادا کرنے میں ان کی مدد کی

اس کی شادی کے دوران ہی میری چھوٹی بہن کو بھی کچھ لوگوں نے پسند کر لیا اور اس کی بھی منگنی کر دی گئی میری عمر پچیس سال ہو چکی تھی مناسب نوکری اور ان فرائض سے سبکدوش ہوتے ہوۓ اب میری بھی خواہش تھی کہ میری شادی ہو جاۓ جو کہ ایک فطری تقاضا بھی تھا

اس حوالے سے مشرقی ماحول میں ہونے کے سبب میں اس بات کا منتظر تھا کہ میرے والدین مجھ سے میری شادی کے حوالے سے بات کریں مگر میرے امی ابو میری چھوٹی بہن کی شادی اور بڑی بہن کی شادی کے قرضوں کے سبب اس ذکر سے کترا رہے تھے

آخر ایک دن میں نے خود اس بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا میں نے اپنی چھوٹی بہن کے ذریعے اپنی امی تک یہ بات پہنچائی کہ میں اب شادی کرنا چاہتا ہوں مگر میری امی کا جواب بہت ہی حیرت انگیز تھا ان کا کہنا تھا کہ جوان بہن گھر بیٹھی ہے اور اس کو اپنی شادی کی بات کرتے ہوۓ شرم نہیں آئی

میں ان کے جواب کو سن کر چپ سا ہو گیا مجھے لگا جیسے میں نے واقعی کوئی شرمناک بات کر دی ہے مگر اپنے جسمانی تقاضوں کے سبب بے چینی کا شکار تھا میرا دل اب کام میں بھی نہیں لگتا تھا ہر وقت ایک سستی سی چھائی رہتی تھی میرا بھی دل چاہتا تھا کہ میری زندگی میں بھی کوئی ایسا ہو جو صبح میرے بالوں میں ہاتھ پھیر کر مجھے جگاۓ

کوئی تو ایسا ہو جو میرے جسمانی تقاضوں کو سمجھتے ہوۓ ان کی پزیرائی کرے جس کو اپنی بانہوں میں لے کر خود میں سمیٹوں جو میرے اندر کی آگ کو اپنے باتوں سے اپنے پیار سے ٹھنڈا کرے مگر میں شرم کے باعث یہ سب اپنے والدین سے نہ کہہ سکا

میں نے سوچا کہ چھوٹی بہن کی شادی ہو لینے دو اس کے بعد میرے ماں باپ کے پاس کوئی وجہ نہ ہو گی چھوٹی بہن کی رخصتی والے دن میں بہت خوش تھا کیوںکہ مجھے یقین تھا کہ اب تو ساری وجوہات کا خاتمہ ہو چکا اب میری شادی یقینی ہو گی

شادی کے ہنگاموں کے ماند پڑنے کے بعد میں نے ایک بار پھر امی سے پوچھا کہ اب ان کا کیا ارادہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ بہن کی شادی کے قرضے اتارنے کے بعد وہ سوچ رہی ہیں کہ ابو کے ساتھ عمرہ کر لیں عمر زیادہ ہوتی جا رہی ہے پھر زندگی کا کیا بھروسہ !

ان کی بات سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ وہ میری شادی کروانا ہی نہیں چاہ رہی ہیں میری عمر اب اٹھائیس سال ہو چکی تھی اس موقع پر میں نے اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک طلاق یافتہ ایک بچی کی ماں کا ہاتھ تھامنے کا فیصلہ کیا

ایک دن اس کے ساتھ کورٹ میرج کر کے جب میں اس کو گھر لے کر آیا تو میری امی پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے میری بہنوں اور میری امی نے میری بیوی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اتنی ریاضتوں کے بعد صرف اس ایک عمل کے سبب میرے تمام کیۓ کراۓ پر پانی پھر گیا

اب دن رات میری ماں میری بیوی کے ساتھ بات بات پر لڑتی ہیں اور پوری کوشش کرتی ہیں کہ کسی طرح میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں ان حالاات میں آپ ہی بتائيں میں کیا کروں

 

 

To Top