اسلام لڑکی کے ساتھ زبردستی شادی کے بارے میں کیا کہتا ہے قرآنی آیات کی روشنی میں جانئیے

شادی بیاہ کے حوالے سے جھگڑے ہمارے معاشرے میں عام طور پر اکثر اوقات دیکھنے میں آتے ہیں اس معاملے میں سب سے عام جھگڑا زبردستی کی شادی کی صورت میں سامنے آتا ہے جب ماں باپ اپنی اولاد کی شادی کا فیصلہ اپنی خوشی اور اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں ۔


شادی میں اولاد کی رضا کے حوالے سے قرآن و سنت میں مکمل رہنمائی موجود ہے جس کو بچوں کی شادی کرتے ہوۓ زیادہ تر والدین نظر انداز کر دیتے ہیں اور جس کا نتیجہ انہیں آنے والے وقت میں بھگتنا پڑتا ہے اس حوالے سے اگر اسلام کے نقطہ نظر کو دیکھا جاۓ تو فرمان رسول ہے ۔

غیر شادی شدہ عورت کا اور بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ والدین اس بات کے پابند ہیں کہ کنواری لڑکی کے نکاح سے قبل اس کی رضا لازمی طور پر حاصل کریں اس کے باوجود اگر  کسی لڑکی کا نکاح اس کی رضا کے بغیر پڑھوا دیا جاۓ تو اس حوالے سے بھی فرمان رحمت العالمین ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک کنواری لڑکی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میرے باپ نے میری ناپسندیدگی کے باوجود میرا نکاح کر دیا ہے، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا کہ اسے منظور کر لے یا رد کر دے

مگر یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا

         سورۃ النساء کی 25ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ترجمہ : ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرلو ۔

یعنی کسی لڑکی کے نکاح کے لیۓ صرف اسی کی رضامندی ضروری  نہیں ہوتی اس کے ساتھ ساتھ اس کے ولی جن سے مراد اس کے باپ سے ہے اس کی رضامندی کا حصول بھی ایک لازمی امر ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے والدین اور اولاد کے لیۓ حدود متعین کر دی ہیں اور دونوں پر یہ واجب کر دیا ہے کہ وہ ان حدود کا پاس رکھیں

ان تمام قرآن و حدیث کی مٹالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں شادی سے قبل بیٹی کی اجازت لینا ایک لازمی امر ہے اور اگر اس کا پاس نہ رکھا جاۓ تو پھر ایک عاقل و بالغ لڑکی کے پاس اس بات کا حق موجود ہے کہ جو نکاح اس کی رضا کے بغیر زبردستی کروایا گیا ہے وہ اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے

 

To Top