ہماری زندگی ہماری مرضی ۔ہم کب بچہ پیدا کریں اس کا فیصلہ ہم کریں گے یا دنیا والے ؟

شادی انسان کی زندگی کا وہ موڑ ہوتا ہے جس کے لیۓ سمجھدار لوگ کافی تیاری کر کے رکھتے ہیں کیوں کہ اس کے بعد ہی زندگی کا نیا آغاز ہوتا ہے ۔ ہمارے مشرقی گھرانوں میں شادی کا مطلب یکسر مختلف ہوتا ہے شادی کی پہلی رات کے گزرتے ہی پورا خاندان سوالیہ نظروں سے یہی دریافت کرنا شروع کر دیتا ہے کہ کوئی خوشخبری ہے یا نہیں ۔

ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا میں ابھی میڈیکل کے تیسرے سال تھی تو میری ساس جو رشتے میں میری پھپھو بھی ہیں شدید بیمار ہو گئیں جس کے سبب میرے ابو کو ان کی خواہش پر فوری طور پر شادی کی تاریخ رکھنی پڑی دوسری جانب میرے شوہر بھی سی اے کے طالب علم تھے اتنی سخت پڑھائی کے شیڈول کے ساتھ شادی کے لیۓ ہم دونوں ہی تیار نہ تھے مگر امی کی بیماری کو دیکھتے ہوۓ ہمیں ان کی خواہش کا احترام کرنا پڑا ۔ان کی طبیعت بھی شاید ہماری شادی کا ہی انتظار کر رہی تھی اس لیۓ شادی ہوتے ہی سنبھلنا شروع ہو گئی

شادی ہوتے ہی پہلی رات ہی ہم دونوں نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ جب تک ہماری تعلیم مکمل نہیں ہو جاتی اور ہم لوگ اپنے کیرئیر نہ بنا لیں تب تک ہم دنیا میں اپنی اولاد کو پلان کریں گے ۔ ہم دونوں اس بات سے واقف تھے کہ ہماری پڑھائی اور اس کے بعد کیرئیر بنانے میں تقریبا تین سے چار سال لگ سکتے ہیں

مگر ہماری عمر کے حساب سے یہ کوئی اتنا بڑا عرصہ نہ تھا اور ہم اس بات کے بھی حواہشمند تھے کہ ہمارا بچہ جب اس دنیا میں آۓ تو ہم اس کو اپنا وقت توجہ اور وہ سب کچھ دے سکیں جس کے خواب ہم اس کے لیۓ دیکھتے ہیں ۔ اپنے اس فیصلے کے بارے میں ہم نے کسی قسم کا اعلان نہیں کیا کیوں کہ ہمارا ماننا تھا کہ یہ ہمارا باہمی مسلہ ہے

شروع کے کچھ دن تک کسی نے بھی ہمیں کچھ نہ کہا اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کو پانے کے بعد اپنے کیرئیر بنانے کی دھن میں لگ گۓ ۔ شادی کے چھ ماہ کے بعد ایک دن جب میں کالج سے تھکی ہاری گھر آئی تو میری ساس کہیں جانے کے لیۓ تیار بیٹھی تھیں مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا کہ بہو تم تیار ہو جاؤ تمھیں میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے

مجھے لگا شاید انہیں اپنے چیک اپ کے لیۓ جانا ہے اسی وجہ سے میں ان کے ساتھ جانے کے لیۓ تیار ہو گئی وہاں جا کر پتہ چلا کہ مریض وہ نہیں بلکہ میں ہوں اور وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس اس لیۓ لائی ہیں کہ میری اولاد نہیں ہو رہی یہ تو شکر تھا کہ وہ ڈاکٹر میری جاننے والی نکل آئیں اور میں نے ان کو اکیلے می سب بتا دیا جس پر انہوں نے میری ساس سے کہہ دیا کہ لڑکی میں کوئی خرابی نہیں تاخیر کا سبب اللہ کی مرضی ہے ۔

مگر ان کا یہ کہنا تو میرے لیۓ مذید دشواریاں لے آیا میری ساس اللہ کی مرضی کا مطلب یہ سمجھیں کہ کسی نے کوئی جادو کر ڈالا ہے اسی سبب ان کے بیٹے کے ہاں اولاد نہیں ہو پا رہی اس کے بعد تو جب گھر آؤں کبھی میرا استقبال کسی تعویز سے ہو کبھی کسی دھونی سے ،میں نے اپنے شوہر سے بھی کئی دفعہ کہا کہ امی سے کھل کر بات کریں مگر ان کی بیماری کے سبب وہ بھی ان کو کچھ نہ کہہ پاۓ

اب تو انہوں نے ملنے جلنے والوں کے سامنے بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ اگر یہ عورت میرے بیٹے کی اولاد پیدا نہ کر پائی تو میں دوسری عورت لے آؤں گی ۔ اس مقصد کے لیۓ انہوں نے کئی رشتے کروانے والی عورتوں کو بھی میرے شوہر کی تصویر دیکھ کر لڑکی ڈھونڈنے کا کہہ دیا ہے ۔

آخر کار ایک دن میرے شوہر نے ان کو سب بتا دیا کہ ابھی ہم لوگ جب تک اپنی تعلیم مکمل نہیں کر لیتے تب تک بچہ پیدا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے مگر میرے شوہر کی اس بات کو انہوں نے اس بات سے تعبیر کیا کہ میں نے اپنے شوہر کو سمجھا بچھا کر اپنے چکر میں لے لیا ہے اور ان کی موت کا انتظار کر رہی ہوں جب کہ وہ اپنی زندگی ہی میں اپنے بیٹے کے بچے اپنی گود میں کھلانا چاہتی ہیں

ان جالات میں کبھی تو دل چاہتا ہے کہ تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر ان کی خواہش پوری کر دوں مگر پھر خیال آتا ہے کہ تھوڑے سے دن کی بات ہے تب تک صبر کیا جا سکتا ہے ۔ ان کو سمجھانے میں میرے ابو سمیت سب لوگ ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہو رہا بلکہ پاکستان کے زیادہ تر گھرانوں میں بچے کی پیدائش کا فیصلہ اس کے ماں باپ نہیں بلکہ عزیز و اقارب ہی کرتے نظر آتے ہیں ۔ جو کہ ایک زیادتی کے سوا کچھ نہیں۔

ان حالات نے میری تعلیم پر بھی برا اثر ڈالا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ آخر میرا قصور کیا ہے اور ایک عورت کے لیۓ سب سے زیادہ مسائل شادی کے بعد کی زندگی میں ایک عورت ہی کیوں پیدا کرتی ہے ؟؟؟

To Top